❣دل کو چھو لینے والا اور ضمیر کوجھنجھوڑنے والا واقعہ ❣
رات کا آخری پہر تھا اور تیز بارش کے ساتھ ساتھ سردی کا تو پوچھیئے ہی مت ہڈیوں میں گھسی جا رہی تھی میں اپنی کار میں ایک دوسرے شہر سے کاروباری دورے سے واپس اپنے شہر آ رہا تھا کار کے دروازے بندہونے کے باوجود میں سردی محسوس ہو رہی تھی، دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ بس جلدی سے گھر پہنچ جاؤں اور بستر میں گھس کر سو جاؤں، سڑکیں بالکل سنسان تھی یہاں تک کہ کوئی جانور بھی نظر نہیں آ رہا تھا، لوگ اس سرد موسم میں اپنے گرم بستروں میں دبکے ہوئے تھے جیسے ہی مینے کار اپنی گلی کی طرف موڑی تو مجھے کار کی روشنی میں بھیگتی بارش میں ایک سایہ نظر آیا اس نے بارش سے بچنے کے لیئے سر پر پلاسٹیک کے تھیلے جیسا کچھ اوڑھ رکھا تھا اور وہ گلی میں رکے ہوئے پانی سے بچتے ہوئے آہستہ آہستہ جا رہا تھام جھے بہت حیرانی ہوئی کہ اس موسم میں جب کہ رات کا بالکل آخری وقت ہے کون اپنے گھر سے باہرنکل سکتا ہے،
مجھے اس پر ترس آیا کہ پتا نہیں کس مجبوری نے اس کو ایسی طوفانی بارش میں باہر نکلنے پر مجبور کیا ہےھو سکتا ہے کہ گھر میں کوئی بیمار ہوگا اور اسے اسپتال لے جانے کے لیئے کوئی سواری ڈھونڈ رہا ہوگامینے اس کے قریب جاکر گاڑی روکی اور شیشا نیچے کر کے پوچھاکیا بات ہے بھائی صاحب آپ کہاں جا رہے ہو سب ٹھیک تو ہے ایسی کونسی مجبوری آ گئی کہ ایسی تیز بارش اور اتنی دیر رات سردی میں آپکو باہر نکلنا پڑا آئیے میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں
اس نے میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا بھائی بہت بہت شکریہ میں یہاں قریب ہی جا رہا ہوں اس لیئے پیدل ہی چلا جاؤنگا مینے پوچھا لیکن آپ ایسی سردی اور بارش میں جا کہاں رہے ہو اس نے کہا مسجد !
مینے پوچھا اس وقت اس وقت مسجد میں جاکر کیا کروگےتو اس نے جواب دیا کہ میں اس مسجد میں مؤذن ہوں اور فجر کی اذان دینے کے لیئے جا رہا ہوں
یہ کہہ کر وہ اپنے راستہ پر چل پڑا اور مجھے ایک نئی سوچ میں گم کر گیا کیا آج تک ہم نے یہ سوچا ہے سخت سردی کی رات میں طوفان ہو یا بارش کون ہے جو اپنے وقت پر اللہ کے بولاوے کی صدا بلند کرتا ہے کون ہے جو آواز بلند کرتا ہے کہ آؤ نماز کی طرف آؤ کامیابی کی طرف اور اسے اس کامیابی کا کتنا یقین ہے کہ اسے اس فرض ادا کرنے سے نا تو سردی روک سکتی ہے اور ناہی بارش ،
جب ساری دنیا اپنے گرم بستروں میں نیند کے مزے لے رہی ہوتی ہے تب وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لیئے اٹھ جاتا ہے اور آج تک ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ان کی تنخواہ کتنی ہوگی شاید 4000 سے 6000 روپیئے ایک مزدور بھی روزانہ 400 روپیئے کے مطابق مہینہ 12000 روپیئے کما لیتا ہے ؟
مگر چوبیس و گھنٹہ حاضری دینے والے کے لئے کیا رکھا ہے ہم نے! ہماری سوچ کیسی ہے وہ اس واقعہ سے سمجھ لیجیے......!!!!
شیخ الحدیث والتفسیر ابوالبرکات سید احمدرحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس قلعہ گوجر سنگھ کے چند احباب اپنے محلہ کی مسجد کے لیے امام وخطیب کی درخواست لے کر حاضر ہوئے ، اور کہا :
ہمیں ایسا امام وخطیب چاہیے جو عالم بھی ہو اور خطیب بھی ؛ لیکن ہم غریب لوگ ہیں ہماری توفیق اتنی نہیں کہ ان کی معقول خدمت کر سکیں ، کچھ کرم فرمائیے!
حضرت سید صاحب کی طبع مبارک میں ایک لطیف مزاح کا عنصر بھی تھا ، فرمانے لگے:
میری نظر میں ایک ایسا عالم ہے جو بہت ہی بڑا عالم ہے اورمزے کی بات یہ ہے کہ اسے لالچ کسی بات کا نہیں ، اسے کھانے پینے کی بھی پروا نہیں ، بلکہ وہ کھاتا پیتا ہی نہیں ؛ رہنے کے لیے اسے مکان کی ضرورت نہیں ،تنخواہ کا بھی وہ محتاج نہیں ؛ اس کا نام تمہیں بتا دیتا ہوں تم اس کے پاس چلے جاؤ اگر وہ راضی ہو گئے تو تمہارا کام بن جائے گا ، تمہارے سارے کام بھی کرے گا اور تم سے لے گا بھی کچھ نہیں -
وہ لوگ بڑے خوش ہو ئے اور پوچھنے لگے حضور اُن کا نام !
آپ نے فرمایا: حضرت جبریل علیہ السلام -
یہ سن کر وہ چونکے بھی ، اور ہنسے بھی -
حضرت نے فرمایا:
تم عالم تو ایسا چاہتے ہو جس میں ہرخوبی ہو مگر ساتھ ہی تمہاری خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کھائے پیے کچھ نہیں ، رہنے ، پہننے سے بے نیاز ہو اور تمہیں اس کی خدمت نہ کرنی پڑے -
دنیاوی ضرورتوں پر تو ہزاروں لاکھوں خرچ کردو پروا نہیں ، اورجو دینی ضرورت پیش آئے تو توفیق یاد آجاتی ہے -
واقعی ہم امام مسجد کی خدمت اس طرح نہیں کرتے ، جس طرح کرنی چاہیے ؛
پیروں اور نعت خوانوں کو لاکھوں نذرانے میں دے دیتے ہیں مگرعلما وائمہ کو.....!!! )
سوچو سمجھو اور قدم بڑھاؤ، جزاک اللہ خیرا!
💌💌💌💌💌💌💌💌💌
❣اسیر بارگاہ رضا❣
📧عبدالامین برکاتی قادریؔ
🇮🇳ویراول گجرات ہند
📲ف+919033263692
No comments:
Post a Comment