... .. ...... ... ..دعوت فکر. .....
1-ہر ترقی یافتہ قوم اپنے مذھبی پیشواؤں کی عزت وتوقیر کا بھرپور خیال رکھتی ھے لیکن ھماری قوم کو کیا ھوگیا ھے؟ کہ اس نے اپنے مذھبی رھنماوں کو چندے کی رسید تھماکر شھر شھر قریہ قریہ گھماکر اور دروازے دروازے پھراکر گویا انھیں قدم قدم ذلیل کرنے کی مھم چھیڑ رکھی ھے، اور شکوہ کناں بھی ھے کہ ھمیں ترقی سے حصہ کیوں نھیں مل رھا هے؟؟ ! قسم بخدا ترقی کرنا ھے تو اپنے مذھبی پیشواوں کو عزت دو، ان کے ھاتھوں سے رسید چھینو، اور مدرسے کا پیٹ بھرنے کے لئیے کوئی اور سبیل پیدا کرو، ان وارثین منبرو محراب کو بھینٹ نہ چڑھاؤ ، ورنہ قوم کی تعمیر و ترقی کا ھر خواب ھمیشہ نا آشنائے تعبیر رھےگا.
2-جس دور میں درس نظامی کا نصاب تشکیل دیا گیا اس دور کے علماء سے چندے نھیں کرایا گیا بلکہ بیت المال اور اوقاف اسلامی سے ان کی ضروریات پوری کی گئیں، ان کی عزت نفس کا بھرپور خیال رکھا گیا اور ان کی قدرو منزلت میں کوئی کمی روا نہ رکھی گئی بلکہ گاھے گاھے سیم وزر سے تول کر ان کی عزت وتوقیر طشت از بام بھی کی گئی.لیکن اس زوال آمادہ دور میں درس نظامی کا جامع نصاب پڑھانے والے اساتذہ کی درگت کس قدر قابل افسوس ولائق صد رحم ھے!
میرے بھائیو اور ذمہ داران قوم وملت!
3- دنیا جھان کے کسی بھی فرم، کمپنی اور ادارے کا یہ دستور نھیں کہ وہ اپنے ملازمین سے کام بھی کروائے اور ان کی تنخواہ کی فراھمی بھی انھیں سے کرائے لیکن اگر یہ اندھا قانون اور ظالمانہ دستور پوری شدومد کے ساتھ مدارس اسلامیہ میں رائج ونافذ ھے کہ یہاں بےچارے مدرسین سال بھر تک ملازمت کرتے ھیں اور پھر اپنی تنخواہ کی حصولی کے لئے انھیں وصولی بھی کرنا پڑتی ھے. فیا اسفی علی قومی! !!
4-آج تک مجھے یہ بات سمجھ نھیں آئی کہ آخر یہ نظمائے مدارس اور اراکین ادارہ کیا بلا ھیں اور کس درد کی دوا؟. ان کے خلاف پرجوش منظم اور ہمہ گیر تحریک چلانا وقت کی ناگزیر ضرورت ھے ورنہ مذھبی رھنماوں کے ساتھ اس ننگے کھیل کی شب دیجور کبھی آشنائے سپیدہ سحر نہ ھوگی.
از: مولانا افروز قادری چریا کوٹی
ترتيب و پیشکش: محمد عباس مصباحی گورکھپوری
No comments:
Post a Comment