❣ائمہ مساجد ملازم یا قوم کا رہنما❣
ہندوستان میں ساڑھے پانچ لاکھ کے لگ بھگ مساجد ہیں جو اوقاف میں درج رجسٹر ہیں۔ ان میں سے بہت کم مساجد کے امام کی معاشی حالت بہتر ہے۔ وہ امام جن کے سیاسی اثرات و رسوخ ہیں‘ جو سوسائٹی میں اپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں‘ ان کی حالت قدر بہتر ہے۔ تاہم بیشتر مساجد کے اماموں اور مؤذنین کی معاشی حالت بہتر نہیں ہے۔ ان کی تنخواہیں مساجد کی انتظامی کمیٹی کے مرہون منت ہوتی ہے! زیادہ تر ائمہ کرام کا تعلق یو پی بہار بنگال سے ہے جو اپنا وطن اپنا گھر بار چھوڑ کر سینکڑوں میل دور آکر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہیں انتظامی کمیٹیوں کی جانب سے اس قدر کم ہدیہ دیا جاتا ہے کہ ان کے ارکان خاندان دو وقت بھی پیٹ بھر نھیں کھاسکتے۔ انہیں اپنے گذر بسر، بچوں کی تعلیم، لڑکیوں کی شادی اور دیگر اخراجات کیلئے یا تو کسی مدرسے سے وابستہ ہونا پڑتا ہے یا پھر گھر گھر جاکر عربی ٹیوشن پڑھانے پڑتے ہیں۔ ان کی قدر و قیمت چند ایک موقع پر ہوتی ہے خاص طور پر کسی کے گھر موت واقع ہو تو غسل جنازہ، نماز جنازہ اور دعائے مغفرت کیلئے....!
ماہ رمضان واقعی ائمہ کرام اور مؤذنین کے لئے مبارک ثابت ہوتا ہے جب کچھ مسلمان ان ائمہ اور مؤذنین کا بھی خیال کرتے ہوئے 100، 50 روپئے اور زیادہ سے زیادہ 500، 1000 روپئے تک کا عطیہ دیتے ہیں۔ رمضان کے بعد بیشتر مسلمان مسجد کا راستہ بھول جاتے ہیں تو بھلا امام اور مؤذن کیسے یاد رہ پائیں گے۔
بیشتر مساجد کے انتظامی کمیٹیوں پر ایسے لوگ قابض رہتے ہیں جو کسی بھی طرح سے اس کے اہل نہیں ہوتے۔ اللہ کے گھر کے انتظامات کی نگرانی کو بجائے سعادت اور اعزاز سمجھنے کے وہ اسے اپنا حق اختیار سمجھتے ہیں اور امام اور مؤذن کو اپنا ملازم بلکہ کئی ایسی مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں جہاں امام صاحب کو انتظامی کمیٹی کے ارکان کے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھانے پڑھتے ہیں اور کبھی کبھار گھر کا سودا سلف بھی لانا پڑتا ہے۔ اگر کبھی امام و مؤذن انتظامی کمیٹی سے اپنے ہدیہ میں اضافے کی گذارش کرتے ہیں تو بہانہ تلاش کرکے انہیں بدل دیا جاتا ہے۔ اگر ذی اثر حضرات سفارش کرتے ہیں تو مساجد کی آمدنی کا رونا رویا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مساجد کی آمدنی معقول نہیں ہوتی۔
یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ ایرکنڈیشنڈ مساجد، لاکھوں روپئے کے جھومر اور فانوس، لاکھوں روپئے کے کارپٹ، غیر معمولی روشنی اور جس کی اقتداء میں نماز ادا کررہے ہیں اس کی حالت پر کوئی غورنہیں کرتا۔ جو سال کے بارہ مہینے ہر موسم میں آپ کو اللہ کے گھر کی طرف کامیابی کی طرف آواز دے کر بلاتا ہے اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ ان کے گھر کی حالت کیا ہوگی، ان کے بچے پڑھ رہے ہیں یا نہیں‘ بچیوں کی شادی کی تیاری کیسے ہوتی ہوگی۔ اور کیاکیا مسائل ہیں‘ کبھی اس پر کسی نے سوچا بھی ہے۔ بس ہم اخباری بیانات دے دیتے ہیں کہ امام اور مؤذن کو تنخواہ دینے سے مساجد پر حکومت کا کنٹرول ہوجائے گا مگر کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ اگر معقول معاوضہ ادا نہ کیا جائے تو یہ لوگ مسائل کا شکار رہیں تو کیا وہ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھا سکتے ہیں۔ اس موقع پر حضرت علامہ صاحب کی بات یاد آرہی ہے جنہوں نے ائمہ کرام کو معقول معاوضہ ادا نہ کرنے کے حوالے سے کہا تھا کہ ایک بار کسی نے ایک امام صاحب سے ہمدردی جتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کیسے مصلیان ہیں، کیسی انتظامی کمیٹی ہے‘ جو آپ کی خدمات کا لحاظ نہیں کرتی‘ آپ کو ضرورت کے مطابق ہدیہ نہیں دیتی۔ جواب میں امام صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ حضرت وہ اگر ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں تو ہم بھی کچھ کم نہیں میں نے بھی انتقاماً تمام نمازیں بغیر وضو کے پڑھائی ہے۔ 🤔😂😃
جیسا کروگے ویسا بھروگے! مضمون جاری ہے
شیئر کرتے رہیے( یہ تحریر گواہ اردو اخبار سے لکھا ہوں،جزاک اللہ خیرا فی الدارین
💌💌💌💌💌💌💌💌💌
🌹اسیر مدینہ🌹
📧عبدالامین برکاتی قادریؔ
🇮🇳ویراول گجرات ہند
📲ف +919033263692
No comments:
Post a Comment