🌹ائمہ مساجد اور پانچ ہزار تنخواہ؟🌹
ائمہ مساجد کو وہ احترام اور مقام دیا جائے جو ان کا حق ہے تو اس میدان میں صلاحیتیں ضرور آئیں گی۔ امام مسجد کا کردار مسلم معاشرے کو جوڑنے میں انتہائی اہم ہے۔ اس کام پر جو مراعات ملتی ہیں، بڑے شہروں میں تو گزارہ لائق، وہ بھی ادنیٰ درجہ۔
اکثر جگہوں میں امام مسجد کی تنخواہ اتنی ہوتی ہے کہ وہ اگر ہشیاری سے اس کو صرف کرے تو وہ اس کے بچے بھوک سے مرنے سے بچ سکتے ہیں۔ آج کل جہاں ایک سرکاری چوکیدار کی تنخواہ 20 ہزار روپیہ تک ہے، کسی امام کی تنخواہ 20 ہزار روپے شاید کہیں ہو، ورنہ امام کی تنخواہ آج بھی 5 سے 8 ہزار روپے تک کا اوسط رکھتی ہے۔
ایک امام صاحب نے اپنا واقعہ خود سنایا کہ کسی محلے کے لوگوں نے ان سے محلےکی امامت کی بات کی۔ تنخواہ 2 ہزار روپے بتائی۔ شرط یہ رکھی کہ محلے کے بچوں کو بھی پڑھائیں گے۔ محلے داروں کی معاشی حیثیت یہ تھی کہ اس محلے میں 32 ڈاکٹر حضرات تھے جو سب کے سب برسرروزگار تھے۔ اکثریت کی ماہانہ آمدنی ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ یہ صرف ڈاکٹروں کی تعداد تھی، دیگر افسران اور ملازم پیشہ طبقہ بھی تھا، بلکہ اس محلے میں شاید کوئی فرد (مرد یا عورت) بے رزگار نہیں تھا۔
ان کانمایندہ 2 ہزار تنخواہ پر اصرار کررہا تھا۔ وجہ یہ بتاتا تھا کہ امام کو رہائش مفت میں دے رہے ہیں۔ یہ ہے ائمہ مساجد کی معاشی حیثیت اور لوگوں کی نظر میں ان کی ضرورتوں کے اہتمام کی حالت معاشرتی حیثیت بھی بہت حد تک کمزور، بلکہ کمزور ترین ہے۔ عام طور پر امام مسجد کو ایک ادنیٰ ملازم کا درجہ دیدیا جاتا ہے جس پر گرفت کرنے کا تو ہر ایک کو اختیار ہوتا ہے۔ ہر وہ شخص جو امام صاحب کو ماہانہ 2 سو روپیہ بھی دیتا ہے، وہ بھی اس کی پورے ماہ حاضری اور اس کے چال چلن کی بھرپور نگرانی رکھتا ہے۔ خود نماز کی پابندی کرے نہ کرے، امام کو حاضر رہنے کی تاکید کرتا رہتا ہے۔ اسی کمزور معاشرتی حیثیت کی وجہ سے باصلاحیت افراد امام مسجد بننے سے بچتے ہیں۔
جب کسی کام کی حوصلہ افزائی اور قدرنہیں کی جاتی تو معاشرے کے صلاحیت والے افراد کی اس کی طرف آمد کم ہوجاتی ہے، اس لیے یہ شکایت پیدا ہوجاتی ہے کہ ائمہ مساجد منبر و محراب کی ذمہ داریاں کماحقہ ادا نہیں کرتے۔یہ عجیب طرزِ عمل ہے کہ امام کو چپڑاسی کی حیثیت بھی نہیں دیتے اور توقع اس سے قائدانہ کردار کی رکھتے ہیں۔ کسی دور میں منبر ومحراب نے اپنا کردار نبھایا تو اس لیے کہ منبر و محراب ایک معزز اور بااختیار ادارے کا نام تھا۔ معاشرے کا معزز ترین کردار تھا۔ اس کی طرف معاشرکے افراد کی شدید رغبت اور دلچسپی تھی۔
آج کرکٹ کے کھلاڑیوں کی پوجا کی حدتک حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ کرکٹ میں دولت، عزت اور شہرت ہے تو مسلسل بین الاقوامی سطح کے کھلاڑی پیدا ہورہے ہیں۔ ائمہ مساجد کو وہ احترام اور مقام دیا جائے جو ان کا حق ہے تو اس میدان میں صلاحیتیں ضرور آئیں گی۔ امام مسجد کا کردار مسلم معاشرےکو جوڑنے میں انتہائی اہم ہے۔ اس اہم کردار سے مسلم معاشرے کی بے رغبتی، اس کو نظرانداز کرنے کا عمل ہی دراصل مسلم معاشرے کی شکست و ریخت بہت بڑا سبب ہے۔
میں خود اگر اپنی ہی بات کہ دوں میں ایک جگہ امامت کے سلسلہ میں ایک جگہ پہنچا اور تنخوار اور دیگر فرائض کی بات چیت ہوئی تنخواہ طے ہوئی پانج ہزار مگر رہنے کے لئے نہ روم ملا اور نہ کھانے کا انتظام جب میں نے کہا تو کہا گیا مجھ سے اگر روم بنائینگے تو الگ سے مولوی کے گھر کا بیل بھی آئے گا جو ہمیں منظور نھیں! اگر یہ مولوی اپنا رہنے کا سہارا خود کہیں کرلے تو یہاں امامت کر سکتے ہیں، ہم پانچ ہزار دینے والے ہیں بھئ
اس مسجد کے حالات
جہاں میں گیا تھا اس مسجد میں پہلے سے ایک امام موجود تھا اور وہ سولہ سال سے امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے، قرآن حافظ تھے سولہ سال میں اس امام صاحب نے محلہ والوں کو کیا دیا وہ صرف ایک جملہ سے سمجھ جائیے، امام صاحب سے مسئلہ پوچھا غسل کیسے کرینگے: جواب ڈول بھر کے سر پہ ڈال دیجیے غسل ہو گیا،(یہ حقیقت ہے)
اس امام صاحب دن بھر مصروف رہتے ہیں کیسے صبح فجر کی نماز کے بعد سے لیکر رات کے گیارہ بجے تک کہیں پہ سورہ بقرہ، تلاوت، ٹیوشن کلاس، وغیرہ مہینہ کی آمدنی پچاس ہزار..! اللہ اکبر، اور مسجد سے تنخواہ ۲۵۰۰ ہے ماشاء اللہ،!
جب صحیح امام نھیں چنوگے، صحیح تنخواہ نھیں دوگے تو جو حال اس امام صاحب کا ہے جیسے غسل کا طریقہ یاد نھیں اس سے برا حال عوام کا ہوگا...! قدر کیجیے اپنے اماموں کی اور تنخواہ ان کی ضرورتوں سے زیادہ دو تاکہ وہ کہیں ادھر ادھر ہاتھ نہ مارے بلکہ محلہ میں رہ کر دین کی صحیح تبلیغ کا فرائض انجام دیں
جزاک اللہ خیرا، شیئر ضرور کریں
💌💌💌💌💌💌💌💌💌
❣فقیر مدینہ❣
📧عبدالامین برکاتی قادریؔ
🇮🇳 ویراول گجرات ہند
📲ف +919033263692
No comments:
Post a Comment