اختلافی مسائل اور ہمارے اسلاف:
فروعی مسائل میں ائمہ کے درمیان اس اختلاف کی حیثیت محض افضل غیر افضل سے زیادہ نہیں ہے، اب یہ دیکھنا ہے کہ صحابہ وتابعین اور اسلافِ امت کا اس اختلاف کے بابت کیا مزاج رہا ہے ؟ کیا انھوں نے اولیٰ اور غیر اولیٰ کے اس اختلاف کو حق وباطل کا اختلاف قرار دے کر اس کو امت کے درمیان انتشار وافتراق کا سبب بننے دیا ہے ؟ اور انھوں نے اسے آپس میں بحث ومناظرہ اور جدل ومناقشہ کاموضوع بنایا ہے ؟ یا اس اختلاف کو معمولی اور محض بہتر وغیر بہتر کا اختلاف گردان کر ایک دوسرے کے آراء کے احترام کو ملحوظ رکھنے کی کوشش کی ہے؟جب ہم صحابہ کرام وتابعین اور اسلاف کے حالات وواقعات کا تتبع کرتے ہیں تو ہمیں اس میں یہ بات ملتی ہے کہ وہ لوگ اکثر وبیشتر مسائل میں آپس کے اس قسم کے اختلافِ آراء کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ نہایت درجہ ادب واحترام کا معاملہ کرتے تھے ، اپنی آپسی ملاقاتوں میں اس معمولی اختلاف کو نظر انداز کر کے نہایت ہی خوش روی اور خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے، انھوں نے اس اختلاف کے بابت کبھی بھی ایک دوسرے پر زبانِ طعن دراز نہیں کی ہے، وہ اس بارے میں اس قدر فراخ دل اور وسعت پسند واقع ہوئے تھے کہ وہ لوگ نقطہٴ نظر اس اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے ؛ چونکہ وہ لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کا یہ اختلاف عین مقتضائے شریعت ہے؛ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے صحابہ وتابعین کے اس اختلاف کے بابت ایک دوسرے کے ساتھ سلوک ورویہ کاتذکرہ کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں :” صحابہ وتابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں کچھ لوگ تو نماز میں بسم اللہ پڑھتے تھے ، کچھ لوگ نہیں پڑھتے تھے ، کچھ لوگ جہراً بسم اللہ پڑھتے تھے ،کچھ لوگ سراً پڑھتے تھے ، بعض حضرات فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے بعض حضرات نہیں پڑھتے تھے ، بعض پچھنالگانوانے ، نکسیر اور قئ کو ناقضِ وضو مانتے تھے اور بعض نہیں مانتے تھے ، بعض مَامَسَّتِ النَّارُ پر وضو کرتے تھے بعض نہیں کرتے تھے ، بعض اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرتے تھے ، بعض نہیں کرتے تھے ؛ مگر بایں ہمہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ، خواہ وہ امام مالکی ہو یا اس کے علاوہ ہو؛ حالاں کہ مالکیہ نماز میں بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے ، اسی طرح ہارون رشید نے پچھنے لگوائے ، پھر نیا وضو کیے بغیر نماز پڑھائی ، امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ان کو فتوی دیا تھا کہ فصد لگوانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور اس کے پیچھے امام ابویوسف نے نمازپڑھی اور اس کا اعادہ نہیں کیا(حالاں کہ ان کے نزدیک بدن سے خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے )اسی طرح امام احمد کامذہب یہ ہے کہ نکسیر آنے اور پچھنالگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؛ مگر جب ان سے مسئلہ پوچھاگیا کہ ایک شخص کے بدن سے خون نکلا اور اس نے وضو کیے بغیر نماز پڑھائی تو کیا آپ اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ”میں امام مالک اور حضرت سعید بن مسیب کے پیچھے نماز کیسے نہیں پڑھوں گا ․؟، یہ بھی مروی ہے کہ امام ابویوسف اور امام محمد عیدین کی نماز پڑھاتے تھے تو ایک قول کے مطابق بارہ تکبیریں کہتے تھے ؛ کیوں کہ خلیفہ ہارون رشید کو اپنے دادا کی تکبیریں پسند تھیں،امام شافعی نے ایک مرتبہ امام ابوحنیفہ کی قبر کے قریب فجر کی نماز پڑھی تو قنوت نہ پڑھا ، پوچھاگیا تو فرمایا کہ ”صاحب قبر کے ساتھ ادب کا معاملہ کرتے ہوئے میں نے ایسا کیا ہے “اور آپ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ”ہم کبھی اہلِ عراق کے مذہب کی طرف اترتے ہیں۔ “ (حجة اللہ البالغہ بحوالہ رحمة اللہ الواسعة :۲/۷۱۴)
اس کے علاوہ صحابہ وتابعین اور اسلافِ امت کے بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں کہ انھوں نے آپس کے اس اختلاف کے سلسلے میں نہایت کشادہ دلی ، وسعتِ قلبی او راعلیٰ ظرفی کا مظاہر کیا ہے ؛ بلکہ وہ لوگ اس قسم کے اختلاف کو امت کے حق میں رحمت وبرکت قراردیتے تھے اور اسے توسع اور فراخی کا باعث گردانتے تھے ۔امام سفیان ثوری ایسے اختلافی مسائل کے بارے میں کہا کرتے تھے : ”یہ نہ کہو کہ علماء نے مسائل میں اختلاف کیا ہے ؛ بلکہ یوں کہو کہ انھوں نے امت کے لیے توسع اور فراخی پیدا کی ہے “ (المیزان الکبری بحوالہ راہِ اعتدال : ۲۳)اسی طرح امام سیوطی نے حضرت عمر بن عبد العزیز کا اس بارے میں یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ یوں کہا کرتے تھے : ”اگر اصحابِ محمد صلى الله عليه وسلم میں اس طرح کے مسائل میں اختلاف نہ ہوتا تو مجھے اس بات سے خوشی نہ ہوتی ؛ اس لیے کہ ان کے مابین اس طرح کا اختلاف نہ ہوتا تو رخصت اور وسعت نہ ہوتی“(ردالمحتار زکریا: ۱/۱۶۸)ایسے ہی خطیب بغدای نے اس تعلق سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ہارون رشید نے ایک مرتبہ امام مالک سے یو ں کہا تھا: میرا ارادہ ہے کہ پوری اسلامی سلطنت میں آپ کی ”موطا“ کی نقل روانہ کروں اور لوگوں کو اس کے مطابق عمل کرنے پرمتفق کرو
کروں تو امام مالک نے اس موقع سے یوں فرمایاتھا:امیر الموٴمنین! ایسا نہ کیجیے ! اور وہ شہروں میں پھیل
گئے ہیں اور ہر ایک کا طریقہ چل پڑاہے ، ہارون رشید نے کہا : اے ابوعبد اللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو توفیقِ ارزانی بخشیں! “(حجة اللہ البالغة بحوالہ رحمة اللہ الواسعة : ۲/۶۱۰، ردالمحتار زکریا : ۱۶۸)
Monday, January 25, 2016
اختلافی مسائل اور ہم- ۲
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment