Total Pageviews

Abdulamin BarkaTi Qadri

Monday, January 25, 2016

جنگ بدر اور علم غیب مصطفی


بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیب کی خبر دینے سے متاثر ہو کر حضرت عباس کا مسلمان ہونا

امام احمد بن حنبل متوفی 241 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
امام محمد بن اسحاق نے بیان کیا کہ جس شخص نے عکرمہ سے سنا اس نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ عکرمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے ( جنگ بدر میں) عباس بن عبد المطلب کو گرفتار کیا وہ ابو الیسر کعب بن عمرو تھے۔ ان کا تعلق بنو سلمہ سے تھا۔ ان سے رسول اللہ صللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اے ابو الیسر ! تم نے اس کو کیسے گرفتار کیا تھا ؟ انہوں نے کہا اس معاملہ میں ایک ایسے شخص نے میری مدد کی تھی جس کو میں نے اس سے پہلے دیکھا تھا نہ اس کے بعد، اس کی ایسی ایسی ہیئت تھی۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری مدد ایک مکرم فرشتے نے کی تھی۔ اور عباس سے فرمایا اے عباس تم اپنا فدیہ بھی دو اور اپنے بھتیجے عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن الحارث کا فدیہ بھی دو اور اپنے حلیف عتبہ بن حجدم کا فدیہ بھی دو جن کا تعلق بنوالحارث بن فھر سے ہے۔ عباس نے ان کا فدیہ دینے سے انکار کیا اور کہا میں اس غزوہ سے پہلے اسلام قبول کرچکا تھا، یہ لوگ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لائے ہیں۔ آپنے فرمایا اللہ تمہارے معاملہ کو خوب جاننے والا ہے اگر تمہارا دعویٰ بر حق ہے تو اللہ تم کو اس کی جزا دے گا۔ لیکن تمہارا ظاہر حال یہ ہے کہ تم ہم پر حملہ آور ہوے ہو سو تم اپنا فدیہ ادا کرو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بیس اوقیہ سونا (بطور مال غنیمت) وصول کرچکے تھے۔ عباس نے کہا یارسول اللہ اس بیس اوقیہ سو نے کو میرے فدیہ میں کاٹ لیجئے۔ آپ نے فرمایا نہیں ! یہ وہ مال ہے جو اللہ نے ہمیں تم سے لے کردیا ہے۔ عباس نے کہا میرے پاس ارمال تو نہیں ہے، آپ نے فرمایا وہ مال کہاں ہے جو تم نے مکہ سے روانگی کے وقت ام الفضل کے پاس رکھا تھا اس وقت تم دونوں کے پاس اور کو نہیں تھا۔ اور تم نے یہ کہا تھا کہ اگر میں اس مہم میں کام آگیا تو اس مال میں سے اتنا فضل کو دینا، اتنا قثم کو دینا اور اتنا عبداللہ کو دینا۔ تب عباس نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کربھیجا ہے میرے اور ام الفضل کے سوا اس کو اور کو نہیں جانتا اور اب مجھے یقین ہوگیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔
(مسند احمد ج 1، ص 353، طبع قدیم، دار الفکر مسند احمد ج 1 رقم الحدیث :3310 طبع جدید، دارالفکر شیخ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ امام محمد بن اسحاق اور عکرمہ کے درمیان راوی مجہول ہے،
مسند احمد ج 1، رقم الحدیث :3310، مطبوعہ دار الحدیث قاہرہ، 1416 ھ،
حافظ الہیثمی نے کہا اس کی سند میں ایک راوی کا نام مذکور نہیں ہے اور اس کے باقی تمام رجال ثقہ ہیں،
مجمع الزوائد ج 2، ص 86
امام محمد بن سعد متوفی 230 نے اس حدیث کو دو مختلف سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور یہ دونوں سندیں متصل ہیں -
طبقات کبری ج 4، ص 9-10، 10-11، مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت، 1418 ھ،
طبقات کبری ج 13-14، 15، مطبوعہ دار صادر بیروت، 1388 ھ،
امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری نتوفی 405 ھ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عایشہ (رض) سے روایت ہے اور لکھا ہے کہ ے ہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کو روایت نہیں کیا، حافظ ذہبی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس پر کوئی جرح نہیں کی -
المستدرک ج 3، ڈ 324، مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ،
امام ابو نعیم الاصبہانی المتوفی 430 ھ نے بھی اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے،
دلائل انبوۃ ج 2، ص 476، رقم الحدیث :409، مطبوعہ دارالنفائس، بیروت،
حافظ ابوالقاسم علی بن الحسن المعروف بابن العساکر، المتوفی 571 ھ نے بھی اس کو روایت کیا ہے -
تہذیب تاریخ و مشق، ج 7، ص 233، مطبوعہ دار احیاء اتراث العربی، بیروت،
مختصر تاریخ ومشق، ج 11، ص 330-329،
علامہ ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن عبداللہ السہیلی المتوفی 571 ھ نے اس لا ذکر کیا ہے،
الروض الائف، ج 2، ص 93، مطبوہ ملتان،
امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی نے اس حدیث کو زہری اور ایک جماعت سے روات کیا ہے،
دلائل النبوۃ، ج 3، ص 143-142،
حافظ ابن کثیر، متوفی 774 ھ نے بھی اس کا از محمد بن اسحاق ازابی نجیح از عطا از ابن عباس ذکر کیا ہے اور یہ بھی سند متصل ہے
السیرۃ النبویہ، ج 3، ص 402، مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، 1417 ھ -
البدایہ والنہایہ، ج 3، ص 699، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1393 ھ،
تفسیر ابن کثیر، ج 3، ص 349، مطبوعہ ادارہ الاندلس بیروت 1375 ھ،
علامہ محمد بن یوسف شامی متوفی 942 ھ نے بھی اس کا اپنی سیرت میں ذکر کیا ہے سیل الھدیٰ والرشاد ج 4، ص 69،
نفسرین نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے، علامہ ابوالحسن بن محمد مادردی، متوفی 450 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے،
النکت والعیون، ج 2، ص 334-333، موسسہ الکتب الثقافیہ، بیروت، امامالحسین بن مسعود الفراء البغوی، متوفی 516، نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے، اس کے آخر میں ہے میں گواہی دیتا ہوں
کہ آپ سچے رسول ہیں، بے شک آپ

اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اس بات پر اللہ کے سوا اور کوئی نطلع نہیں تھا،
معالم التنزیل، ج 2، ص 220، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1414 ھ،
امام حاکم اور امام بیہقی کی روایت میں بھی یہی الفاظ میں،
علامہ جار اللہ محمود بن عمر زمحشری، متوفی 568 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے،
الکشاف ج 2، ص 238، مطبوعہ ایران،
امام ابوالحسن علی بن احمد الواحدی 469 ھ نے کلبی کی روایت سے اس کا ذکر کیا ہے،
اسباب النزول، ص 245، رقم الحدیث 489، امام فخرالدین محمد بن عمر رازی متوفی 606 ھنے اس کا ذکر کیا ہے،
تفسیر کبیر، ج 5، ص 513، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی،
بیروت 1415 ھ، علامہ ابوالفرج محمد بن علی جوزی متوفی 577 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے،
زادالمسیر، ج 3، ص 383، مطبوعہ مکتب اسلانی بیروت، 1407 ھ،
علامہ ابوعبداللہ بن محمد قرطبی 668 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے،
الجامع لا حکام القران جز 8، ص 409، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ،
علامہ عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی 685، نے اس کا ذکر کیا ہے،
انوارالتنزیل مع الکازرونی، ج 3 ص 123، مطبوعہ دارالفکربیروت،
علامہ علی بن محمد خازن متوفی 725 ھ نے اس کا ذکر کیا ھے، لباب التاویل، ج 2، ص 411، مطبوعہ پشاور،
علامہ نطام الدین حسین بن محمد قمی متوفی 728 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے،
غرا ئب القرآن، ج 3، ص 421، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1416 ھ،
علامہ ابوالحیان محمد بن یوسف اندلسی متوفی 754 نے اس کا ذکر کیا ہے،
البحرالمحیط، ج 5، ص 355، مطبوعہ 1412 ھ، شیخ محمد بن علی شوکانی متوفی 1250 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے،
فتح القدیر، ج 3 ص 421، مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت،
شیخ سلیمان بن عمرالمعروف بالجمل متوفی 1204 ھ نے اس کاذ کر کیا ہے،
المفتوحات الالھیہ، ج 2 ص 258، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کرا چی، علامہ سید محمودآلوسی نے اس کاذ کر کیا ہے، روح المعانی، ج 10، ص 37-36، مطبوعہ داراحیاءالتراث العربی، بیروت،
مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی 1396 ھ نے اس کا ذکر کیا ہے، معارف القرآن، ج 4 ص 290، مطبوعہ ادارت المعارف کراچی، 1397 ھ،
شیعہ مفسرین میں سے سید محمد حسین طباطبائ نے اس کا ذکر کیا ہے، المیزان، ج 9، ص 142، مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ، طہران، شیخ فضل بن حسن طبرسی متوفی اصاد قین، ج 4، ص 215، مطبوعہ ایران، غیر مقلدین میں سے نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے بھی اس کا ذکر کیا ہے، فتح البیان، ج 5، ص 218۔ 217، مطبوعہ المکتبہ العصریہ، بیروت، 1412 ھ)
اس حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم غیب کا ثبوت ہے، اور یہ علم غیب آپکو اللہ عزو جل کی عطا سے حاصل ہوا تھا۔ ہم نے اس کے ثبوت میں اسقدر حوالہ جات اس لیے ذکرکیے ہیں تا کے یہ ظاہر ہوجائے کہ ہر مکتب فکر کے قدیم اور جدید علما اسلام کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم ٖغیب مسلم اور غیرنزاعی ہے۔

No comments:

Post a Comment