===بدعت کسے کہتے ہیں؟===
عَنْ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ». [صحيح مسلم، كتاب الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، ر: 867، 592/2].
ترجمہ:” حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ اللہ کے رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے( خطبہ کے بعد)فرمایا:بعد حمدِ الہٰی کے،بے شک سب سے بہتر کلام کتاب اللہ ہے اور بہترین راستہ محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)کا راستہ ہے اور بدترین چیزوں میں وہ ہے جسے نیانکالا گیا اور ہر بدعت گمراہی ہے“۔
وضاحت:
کلامِ الٰہی عزوجل کی برتری تمام کلاموں پر ایسی ہی ہے جیسی رب تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر۔ اوریقینا نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت بہترین سیرت ہے جس کی پیروی کرنا باعثِ نجات ہے ۔ بدترین چیزوں سے مراد وہ عقائد اور اعمال ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد دین میں پیدا کئے جائیں ۔ (مراٰۃ المناجیح ،ج۱،ص۱۴۶)۔
بدعت کا لغوی معنیٰ ہے نئی چیزاور شرعی طور پر ہر وہ نئی چیزجو حضورِ پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانہ مبارکہ کے بعد ایجا د ہوئی بدعت ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح ،ج۱،ص۳۶۸)۔
بدعت کی تعر یف میں '' زمانہ نبوی کی قید'' لگائی گئی ہے، چنانچہ خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاکیزہ دور میں ایجاد شدہ نئے کام کوبھی بدعت ہی کہا جائے گا۔ مگر درحقیقت یہ نئے کام بھی سنت میں داخل ہیں ۔ (ماخوذ از اشعۃ اللمعات، ج۱،ص۱۳۵)۔ کیونکہ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:میری سنت اور میرے خلفاء کی سنّت کو مضبوطی سے پکڑے رہو ۔'' (سنن ابن ماجہ ،مقدمہ،الحدیث۴۲،ج۱،ص۳۱)۔
بدعت کی (اصولِ شرع کے اعتبار سے)دواقسام ہیں :
(۱) بدعتِ حسنہ: ہر وہ نیا کام جو اصول ِ شرع (یعنی قراٰن وحدیث اور اجماع) کے موافق ہو مخالف نہ ہو۔
(۲)بدعتِ ضلالۃ : جو نیا کام اصولِ شرع کے مخالف ہو ۔
اس حدیث میں کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ سے مراد دوسری قسم ہے یعنی ہر وہ نیا کام جو قرآن پاک،حدیث شریف،آثارِصحابہ یا اجماعِ امت کے خلاف ہو وہ بدعتِ سیئہ اور گمراہی ہے اور جو نیا اچھا کام ان میں سے کسی کے مخالف نہ ہوتو وہ کام مذموم نہیں ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تراویح کی جماعت کے متعلق فرمایا نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هٰذِهِ یعنی یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے۔
پھربدعت کی مزید پانچ اقسام ہیں:
( 1)واجبہ(2)مستحبہ(3)مباحہ(4)مکروہہ(5)محرّمہ
(1)واجبہ:
جیسے علمِ نحووصرف کا سیکھنا سکھاناکہ اسی کے ذریعے آیات واحادیث کے معنی کی صحیح پہچان حاصل ہوتی ہے (اگرچہ یہ علوم مروّجہ انداز میں عہدِ رسالت میں موجود نہ تھے) ، اسی طرح دوسری بہت سی وہ چیزیں اور علوم جن پر دین وملت کی حفاظت موقوف ہے ۔ اسی طرح باطل فرقوں کا رد کہ ان کے عقائدِ باطلہ سے شریعت کی حفاظت فرضِ کفایہ ہے۔
(2)مستحبہ:
جیسے سراؤں(مسافر خانوں)کی تعمیر تاکہ مسافر وہاں آرام سے رات بسر کرسکیں،دینی مدارس کا قیام تاکہ علم کی روشنی ہر سو پھیلے،اجتماع میلادُ النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اور بزرگانِ دین کے عُرس کی محافل قائم کرنا۔اسی طرح مسلمانوں کی خیرخواہی کا ہر وہ نیا انداز جو پہلے زمانے (یعنی رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے زمانے)میں موجود نہ تھا ۔
( 3)مباحہ:
جیسے کھانے پینے کی لذیذ چیزیں کثرت سے استعمال کرنا ، وسیع مکان میں رہنا،اچھا لباس پہنناجبکہ یہ چیزیں حلال وجائز ذرائع سے حاصل ہوئی ہوں نیزتکبراور ایک دوسرے پر فخر کا باعث نہ بن رہی ہوں ۔اسی طرح آٹا چھان کر استعمال کرنااگر چہ عہد ِ رسالت میں اَن چھنے آٹے کی روٹی استعمال ہوتی تھی۔
(4)مکروہہ:
وہ کام جس میں اسراف ہو جیسے شافعیوں کے نزدیک قراٰن پاک کی جلد اور غلاف وغیرہ کی آرائش وزیبائش اورمساجد کو نقش و نگار سے مزیّن کرنا۔ حنفیوں کے نزدیک یہ سب کام بلا کراہت جائز ہیں ۔
(5)محرّمہ:
جیسے اہلِ بدعت کے مذاہب ِ باطلہ جو کہ کتاب وسنّت (اور اجماع)کے مخالف ہیں ۔ (ماخوذ از اشعۃ اللمعات،ج۱،ص ۱۳۵ومرقاۃ المفاتیح ،ج۱،ص۳۶۸)۔
بعض لوگ اس حدیث کے معنی یہ کرتے ہیں کہ جو کام حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے بعدایجاد ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ، یہ معنی بالکل فاسد ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح ،ج۱،ص۱۴۷)۔
طلبگار دعاء
عبدالامین برکاتی قادری
No comments:
Post a Comment