قبر کو زمین کے برابر کرنے کے مسئلہ میں حدیث جابر پر بحث
===========================
حدیث جابر سے استدلال : وہابیوں کے دلائل میں سے ایک ،جابر کی حدیث ہے ۔ جس کے ذریعہ قبروں کی تعمیر کی حرمت کا استدلال کرتے ہیں ۔یہ حدیث اہل سنت کی صحاح و سنن میں مختلف صورتوں میں منقول ہوئی ہے ۔اور اس کی تمام سندوں میں (ابن جریح ) اور (ابی الزبیر ) موجود ہیں ۔اب اس مسئلے پر غور وخوض اور تحقیق کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مختلف طریقوں سے نقل ہونے والی حدیث کی تمام اسناد کو نقل کریں ۔ پھر ان سے استدلال کے سلسلے میں اپنے نظریہ کو پیش کریں ۔ یہ ہے وہ مختلف طریقوں سے منقولہ حدیث جو صحاح اور سنن میں نقل ہوئی ہے ۔ مسلم نے اپنی صحیح( النہی عن تجصیص القبر و البناء علیہ ) کے باب میں جابر کی حدیث کو تین طریقوں اور دو متن کے ہمراہ نقل کیا ہے اور وہ درج ذیل ہیں : ١۔ ''حدّثنا ابو بکر بن اَبس شیبة ،حدّثنا حفص بن غیاث ،عن ابن جریح ،عن ابی الزبیر ،عن جابر قال نھیٰ رسول اللہ ان یجصّص القبروان یقعد علیہ و ان یبنیٰ علیہ '' پیغمبروں نے قبروں کی گچ کاری ،ان پر بیٹھنے اور عمارت تعمیرکرنے سے منع کیا ہے ۔ ٢۔ ''حدّثنی ھارون ابن عبد اللہ ،حدّثنا حجاج ابن محمد و حدّثنی محمد بن رافع حدّثنا عبد الرزاق جمیعا عن ابن جریح قال اخبرنی ابو الزبیر ،انّہ سمع جابر بن عبد اللہ یقول سمعت النبی بمثلہ '' یہاں پر متن ایک ہے لیکن دوسری کا طریق سند پہلی حدیث سے تھوڑا مختلف ہے ۔ ٣۔''حدّثنا یحییٰ بن یحییٰ اخبرنا اسماعیل بن عُلیة عن ایوب عن ابی الزبیر عن جابر قال نھیٰ عن تجصیص القبور ''( صحیح مسلم کتاب الجنائز ،ج٣،ص ٦٢) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے قبور کی گچ کاری سے منع فرمایا ہے ۔ صحیح ترمذی کے باب ''کراہیة تجصیص القبور و الکتابة علیھا '' میں ایک حدیث ایک سند سے منقول ہے ۔اور وہ یہ ہے : ٤۔ ''حدّثنا عبد الرحمن بن الاسود ،اخبرنا محمد بن ربعیة عن ابن جریح عن ابی الزبیر عن جابر قال :نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ عن تجصیص القبور و ان یکتب علیھا و ان یبنیٰ علیھا و ان توطاء ''( سنن ترمذی ،تحقیق عبد الرحمن محمد عثمان ،ج٢،ص ٢٠٨ ،ط ،مکتبة سلفیہ ) حضور ختمی مرتبت صلعم نے قبروں کی گچ کاری ،ان پر تحریر ،عمارتوں کی تعمیر اور ان پر چلنے سے منع فرمایا ہے ۔ بعد ازیں ترمذی حسن بصری اور شافعی سے نقل کرتے ہیں کہ ان دوافراد نے قبور پر گُلکاری کی اجازت دی ہے ۔ ''ابن ماجہ '' نے اپنی کتاب ''صحیح '' کے باب ''ما جاء فی النھی عن البناء علی القبورو تجصیصھا و الکتابة علیھا '' میں اس حدیث کو دو متنوں اور دو سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ ٥۔'' حدّثنا ازھر بن مروان ،و محمد بن زیاد ،قال حدّثنا عبد الوارث ،عن ایوب عن ابی الزبیر عن جابر قال نھیٰ رسول اللہ عن تجصیص القبور '' ۔ ٦۔''حدّثنا عبد اللہ ابن سعید ،حدّثنا حفص عن ابن جریح عن سلیمان بن موسیٰ عن جابر قال :نھیٰ رسول اللہ ان یکتب علی القبر شیء ''( صحیح ابن ماجہ ،ج١،ص ٤٧٣ ،کتاب الجنائز ) شارح حدیث اس کو نقل کرنے کے بعد ''حاکم '' سے نقل کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح تو ہے ، لیکن مورد عمل قرار نہیں پائی کیونکہ رہنمایان اسلام ،مشرق سے مغرب تک ،قبروں پر لکھتے آئے ہیں اور در اصل یہ وہ چیز ہے جسے بعد میں آنے والی نسلوں نے اپنے اسلاف سے سیکھا ہے ۔ نسائی نے اپنی کتاب ''صحیح '' کے باب '' البناء علی القبر '' میں اس حدیث کو دو سندوں اور دو متنوں کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ ٧۔'' اخبرنا یوسف بن سعید قال حدّثنا حجاج عن ابن جریح قال اخبرنی ابو الزبیر انہ سمع جابراً یقول نھیٰ رسول اللہ عن تجصیص القبور او یبنیٰ علیھا او یجلس علیھا احد '' ۔ ٨۔'' اخبرنا عمران بن موسیٰ قال حدّثنا عبد الوارث قال حدّثنا ایوب عن ابی الزبیر عن جابر قال نھیٰ رسول اللہ عن تجصیص القبور ''( صحیح نسائی ،ج٤،ص ٨٧ ،مع شرح جلال الدین سیوطی ) سنن ابن دائود کی جلد ٣،صفحہ ٢١٦ کے باب ''البناء علی القبر '' میں حدیث جابر کو دو سندوں اور دو متنوں کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ ٩۔'' حدّثنا احمد بن حنبل ،حدّثنا عبد الرّزاق حدّثنا ابن جریح اخبرنی ابو الزبیر انّہ سمع جابرا یقول سمعت النبی نھیٰ ان یقعد علی القبر و ان یجصّص و یبنیٰ علیہ '' ١٠۔ ''حدثنا مسدّدو عثمان بن ابی شیبة قال حدّثنا حفص بن غیاث عن ابن جریح عن سلیمان بن موسیٰ و عن ابی الزبیر عن جابر بھذا الحدیث قال ابو دائود قال : عثمان او یزاد علیہ و زاد سلیمان بن موسیٰ او ان یکتب علیہ '' ابو دائود کہتے ہیں :پیغمبر اسلام (ص) نے قبروں پرلکھنے اور اس میں اضافہ سے نہیں فرمائی ہے ۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں جابر والی حدیث کو یوں نقل کیا ہے ۔ ١١۔'' عن عبد الرزاق عن ابن جریح اخبرنی ابو الزبیر انہ سمع جابر بن عبد اللہ یقول سمعت النبی ینھیٰ ان یقعد الرجل علیٰ القبر و ان یجصّص و ان یبنیٰ علیھا ''( مسند احمد بن حنبل ،ج٣،ص ٢٩٥ ،٣٣٢،٣٩٩،بصورت مرسل نقل کی گئی ہے ) یہ مختلف طریقوں سے نقل شدہ احادیث تھیں جو مختلف اسناد اور متنوں کے ساتھ نقل ہوئی ہیں اور اب ہم اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ دیکھیں کہ اس حدیث سے استدلال کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ حدیث پر ایک نظر جابر کی اس حدیث میں متعدد نقائص پائے جاتے ہیں ۔لہذا اس سے استدلال ناممکن ہے ۔کیونکہ اولاً: حدیث کی تمام اسناد میں ابن جریح (عبد الملک بن عبد العزیز بن جریح اموی ) اور ابو زبیر ( محمد بن مسلم اسدی ) کا نام کبھی تنہا اور کبھی باہم ذکر ہوا ہے ۔اگر ان کی حقیقت کا پتہ چل جائے تو پھر باقی راویوں کے متعلق بحث و تمحیص کی ضرورت نہ ہوگی ۔ اگر چہ ان میں سے بعض دوسرے راوی بھی ضعیف و مجہول ہیں ۔لیکن پھر بھی ان دو افراد کی حقیقت کا پتہ چل جانے کے بعد باقی راویوں کے متعلق بحث و گفتگو کی ضرورت نہ ہو گی ۔ ابن حجر اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں ابن جریح کے متعلق علماء رجال سے یہ جملہ نقل کرتے ہیں۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں اگر ابن جریح کتاب سے حدیث نقل نہ کرے تو ہرگز اس کی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں اگر ابن جریح کہے : قال فلاں فلاں قال فلاں و اخبرت جاء بمناکیر ''یعنی اگر کہے کہ فلاں فلاں نے یوں کہا ہے تو وہ منکر احادیث نقل کرتا ہے ۔ مالک کہتے ہیں حدیث کی جمع آوری میں ابن جریح کی مثال اس شخص کے مانند ہے ، جو اندھیری رات میں لکڑیاں جمع کر رہا ہو (لازمی طور پر سانپ اور بچھو کے گزند کا خطرہ ہے ) ۔ دارقطنی سے منقول ہے : ''تجنّب تدلیس ابن جریح فانّہ قبیح التدلیس لا یدلس الا فیما سمعہ من مجروح '' ابن جریح کی تدلیس (من گھڑت اور غیر واقع چیز کو واقع اور حقیقت کے طور پر پیش کرنا ) سے پرہیز کریں ۔کیونکہ اس کی تدلیس اتنی نازیبا ہے کہ جب کبھی کسی ضعیف شخص سے بھی روایت و حدیث سنتا ہے تو اسے اس انداز میں پیش کرتا ہے جیسے اس نے کسی ثقہ سے سنی ہو ۔ ابن حبان سے منقول ہے :ابن جریح حدیث میں تدلیس سے کام لیا کرتے تھے ۔( تہذیب التہذیب ،ج٦،ص ٤٠٢ ،٥٠٦ ،ط دار المعارف النظامیہ ،تالیف شہاب الدین ابی الفضل احمد ) کیا علم رجال کے ماہرین اور اسلامی دانشوروں کے ان اقوال کے ہوتے ہوئے ایسے شخص کی حدیث پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ؟ اور سیرۂ مسلمین جو کہ وہ قبور اولیاء صالحین کی تعمیر اور ان کے احترام و تکریم کی بھر پور کوشش کرتے تھے ان کے مقابلے میں اس قسم کے راوی پر بھروسہ ممکن ہے ؟ ( ابو الزبیر ) کے متعلق ابن حجر جو کہ علمائے رجال میں سے ہیں درج ذیل چند جملے نقل کرتے ہیں : احمد بن حنبل کے بیٹے ،احمد سے اور وہ ایوب سے نقل کرتے ہیں کہ وہ اسے ضعیف گردانتے تھے ۔ شعبہ سے منقول ہے کہ وہ تو نماز بھی اچھی طرح نہیں جانتا تھا ۔وہ ان سے یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں : میں مکہ میں تھا کہ ایک شخص ابو الزبیر کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھا :فوراً اس آدمی پر بہتان باندھا ،میں بول اٹھا کہ ایک مسلمان پر تہمت کیوں لگاتے ہو؟ کہنے لگا اس نے مجھے ناراض کیا ہے ۔ میں نے کہا جو تمہیں ناراض کرے اس پر بہتان لگائو گے ؟ آج کے بعد میں تم سے کوئی حدیث نقل نہیں کروں گا ۔ شعبہ سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ ابو الزبیر سے حدیث نقل کرنا کیوں چھوڑ دی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا :جب میں نے دیکھا کہ وہ بدکردار ہے تو اس سے حدیث نقل کرنا ترک کر دیا ہے ۔ ابن ابی حتام سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ ابو الزبیر کیسا ہے ؟ انہوں نے کہا : اس کی حدیث لکھی تو جاتی ہے لیکن اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔ ان ہی سے یہ بھی منقول ہے کہ میں نے ابو زرعہ سے سوال کیا کہ لوگ ابو الزبیر سے حدیث نقل کرتے ہیں ، آپ کے خیال میں کیسا ہے ،کیا اس کی حدیث سے استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ وہ بولے :موثق افراد کی حدیث سے استدلال کیا جاسکتا ہے (کنایہ یہ تھا کہ وہ ثقہ نہیں ہے ) یہ تو تھی علم رجال میں ان دو حضرات کی حالت جو حدیث کی تمام اسناد میں سر فہرست ہیں ۔اب ان باتوں کے باوجود کیا ان دو آدمیوں کی منقولہ حدیث سے استدلال کیا جاسکتا ہے ؟ یہ تو اس صورت میں ہے جب سند میں موجود دیگر حضرات بھی موثق اور صحیح ہوں حالانکہ حدیث کے بعض اسناد میں عبد الرحمن بن اسود بھی موجود ہیں ،جن پر جھوٹ اور دروغ گوئی کا الزام ہے ۔ سچ بتایئے جس حدیث کی سند اس قسم کی ہو اس پر بھروسہ کرتے ہوئے آثار خاندان رسالت (ص) اور اصحاب پیغمبر (ص) کو منہدم و ویران کرنا روا ہے ؟اور چودہ صدیوں کے دوران پائی جانے والی سیرۂ مسلمین کو جھٹلا نا صحیح ہے ؟ ثانیا: حدیث متن کے اعتبار سے بھی مخدوش ہے اور اس کی یہ کیفیت دلیل ہے کہ حدیث کے راویوں نے اس کے متن پر توجہ نہیں دی ہے ۔لہذا اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔ متن حدیث کے ضعیف و بد نظمی کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے : حدیث جابر سات طریقوں سے نقل ہوئی ہے ۔حالانکہ پیغمبر اسلام(ص) نے تو ایک ہی طریقہ سے بیان کیا ہے ۔اور وہ سات طریقے درج ذیل ہیں : ١۔ پیغمبر اسلام (ص) نے قبور کی گچ کاری (انہیں پختہ بنانے ) اس پر تکیہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے : پہلی ، دوسری اور نویں حدیث ۔ ٢۔ حضور اکرم (ص) نے قبور کی گچ کاری سے منع کیا ہے :پانچویں اور آٹھویں حدیث ۔ ٣۔ آنحضرت (ص) نے قبور کی پختگی ،ان پر تحریر و تعمیرنیز ان پر چلنے سے منع فرمایا ہے : چوتھی حدیث ۔ ٤۔ پیغمبر (ص) نے قبر پر لکھنے سے منع کیا ہے ۔چھٹی حدیث ۔ ٥۔ نبی کریم (ص) نے قبر پر لکھنے ، اس کی گچ کاری اس پر بیٹھنے اورعمارت بنانے سے منع کیا ہے ، دسویں حدیث ٦۔پیغمبر (ص) نے قبر پر بیٹھنے اس کی گچ کاری اور اس پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے ۔گیارہویں حدیث ،در حقیقت پہلی صورت اور اس صورت میں فرق یہ ہے کہ اس صورت میں قبر پر بیٹھنے کی ممانعت ہے اور پہلی صورت میں قبر پر تکیہ کرنے کی نہی ہے ۔ ٧۔ رسول اکرم (ص) نے قبر پر بیٹھنے ،اس کی گچ کاری ، اس پر عمارت بنانے ،اس کی مٹی میں اضافہ کرنے اور اس پر لکھنے سے منع کیا ہے ۔ اس میں دیگر تین چیزوں کے علاوہ ،خاک کی زیادتی اور اس پر لکھنے کی ممانعت بھی ہے علاوہ ازیں ،حدیث کی بعض صورتوں میں اختلاف و تضاد بھی پایا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر پہلی صورت میں ''اعتماد '' ہے ۔ تو تیسری صورت میں '' وطاء '' (راستہ چلنے ) کا تذکرہ ہے اور پانچویں اور چھٹی صورت میں ''قعود '' (بیٹھنے ) کا ذکر ہے ۔ حالانکہ یہ بات مسلم ہے کہ ''تکیہ کرنا ''اور چیز ہے ۔اور ''چلنا '' نیز ''بیٹھنا '' الگ چیز ہے ۔ اب اس الٹ پھیر ،کمی زیادتی اور بد نظمی کے ہوتے ہوئے کوئی فقیہہ اس پر کیسے بھروسہ کر سکتا ہے ؟ ثالثاً: بالفرض اگر سند کو صحیح مان لیں اور اسکے الٹ پھیر سے چشم پوشی کر لیں ، تب بھی اس سے صرف اتنا سمجھ میں آتا ہے کہ حضور اکرم (ص) نے قبر پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے لیکن ایک چیز کی ''نہی '' اس کی ''حرمت '' پر دلیل نہیں بن سکتی ۔ کیونکہ نہی بعض اوقات ''تحریمی '' ہوتی ہے اور بعض اوقات ''کراہتی '' پیغمبر اسلام (ص) اور دیگر رہنمائوں کے بیانات میں بے شمار ''نہی کراہتی '' موجود ہے ۔ ٹھیک ہے کہ نہی کے اصلی و حقیقی معنی ''تحریم '' ہیں اور جب تک قرینہ کسی دوسرے معنی پر دلالت نہ کرے تو ہرگز کراہت مراد نہیں لے سکتے ہیں ۔لیکن مذکورہ حدیث سے علماء نے کراہت کے سوا اور کچھ نہیں اخذ کیا ہے ۔ مثال کے طور پر ترمذی نے اپنی صحیح میں ،مذکورہ حدیث کو ذیل کے عنوان کے تحت نقل کیا ہے '' کراھیة تجصیص القبور ...'' کراہیت پر سب سے روشن اور واضح دلی وہی ہے جسے صحیح ابن ماجہ کے شارح ''سندی '' نے حاکم سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی اس نہی پر عمل نہیں کیا ہے ،یعنی اسے ''نہی تحریمی '' قرار نہیں دیا ہے کیونکہ جملہ مسلمانانِ عالم قبور پر لکھتے آئے ہیں ۔ اس کے ''نہی تحریمی '' ہونے پر ایک دوسری دلیل یہ ہے کہ : تمام مذاہب اسلامی کے علماء کا قبور کی تعمیر کے جواز پر اتفاق ہے مگر یہ کہ زمین وقف کی ہوئی ہو ۔ صحیح مسلم کے شارح حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ''اما البناء فان کان فی ملک البانی فمکروہ فان کان فی مقبرة مسبلة فحرام نص علیہ الشافعی و الاصحاب '' ( صحیح مسلم ،ج٣،ص ٦٢ مطبوعہ مصر ) قبر کی تعمیر و عمارت اگر صاحب قبر کی ملکیت میں ہو تو مکروہ ہے اور اگر زمین موقوفہ ہو تو اس میں قبر کی تعمیر و عمارت حرام ہے ۔اس کی امام شافعی نے تصریح کی ہے ۔حتیٰ انہوں نے اس حدیث کو ''کراہة تجصیص القبور و البناء علیہ '' کے باب میں تحریر کیا ہے ۔لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی چیز کا مکروہ ہونا اس بات سے مانع نہیں ہوتا کہ بعض مسائل کی خاطر اس کی کراہت منتفی ہو جائے ۔ جب قبر کی تعمیر حقیقت و اصلیت اسلام کے حفاظت کا باعث ،صاحب قبر سے اظہار مودت ،جن کی محبت خود خدا نے فرض قرار دی ہے کا سبب ، اسلامی شعائر کے تحفظ کا ذریعہ اور اس کے سائے میں زائرین کی عبادت ،تلاوت قرآن یا ذکر الٰہی نیز دعا و مناجات کا باعث بنے تو اس تعمیر قبر سے حاصل شدہ یہ عظیم فوائد نہ صرف یہ کہ اس کی کراہیت کو دور کر دیتے ہیں بلکہ اسلامی شعائر کے تحت اس کے مستحب قرار پانے کا سبب بھی بن جاتے ہیں ۔مکروہ و مستحب احکام عناوین کے بدل جانے سے تبدیل ہو جاتے ہیں ممکن ہے ایک مکروہ فعل کسی مستحسن عنوان کے ذیل میں آجانے کے باعث ،محبوب بن جائے اور مستحب کام بعض عوارض کی بنا پر اپنی محبوبیت کھو بیٹھے کیونکہ کسی فعل کے مستحب و مکروہ ہونے کا سبب صرف اس کی محبوبیت و مرجوحیت ہے ،جب یہ تقاضا باقی رہے گا اور اس کے مقابلہ میں کوئی مانع نہ ہو گا تو اس وقت یہ حکم باقی رہے گا لیکن جب یہ موانع ان مقتضیات کی راہ میں حائل یا ان پر غالب آجائیں گے تو مقتضیات محبوبیت یا مرجوحیت بے اثر ہو جائے گا اسلامی فقہ سے باخبر افراد اس مسئلہ سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ دو مزید حدیثیں جب گفتگو یہاں تک پہنچ گئی ہے تو بہتر ہے کہ کچھ دیگر احادیث کو مورد تحقیق قرار دیں ،جنہیں وہابی ٹولہ بہانہ بنائے ہوئے ہے ۔ ١۔ ابن ماجہ اپنی صحیح میں یوں نقل کرتے ہیں : ''حدّثنا محمد بن یحییٰ ،حدّثنا محمد بن عبد اللہ الرقاشی ،حدّثنا وھب ، حدّثنا عبد الرحمن بن یزید بن جابر ،عن القاسم بن مخیمر عن ابی سعید ، ان النبی نھیٰ انہ یبنیٰ علی القبر ''( صحیح ابن ماجہ ،ج١،ص ٣٧٤) ابن حنبل نے اپنی مسند میں ایک حدیث کو دو سند سے نقل کیا ہے ۔ ٢۔ ''حدّثنا حسن ،حدّثنا ابن لھیعہ ، حدّثنا برید بن ابی حبیب عن ناعم مولیٰ ام سلمة عن امّ سلمة قالت : نھیٰ رسول اللہ ان یبنیٰ علی القبر او یجصّص ''( مسند احمد ،ج٦،ص ٢٩٩) ٣۔'' علی بن اسحاق حدّثنا عبد اللہ ،ابن لھیعہ ،حدّثنی برید بن ابی حبیب عن ناعم مولیٰ ام سلمة ان النبی نھیٰ ان یجصّص قبر او یبنی علیہ او یجلس '' ( مسند احمد ،ج٦ ،ص٢٩٩) پہلی روایت کے ضعیف ہونے کے سلسلے میں یہی کافی ہے کہ اس کے راویوں میں سے ایک ''وہب '' ہے جو کاملاً مجہول ہے اور پتہ ہی نہیں کہ اس سے مراد کونسا وہب ہے ۔ میزان الاعتدال میں وہب نامی سترہ افراد کا تذکرہ ہے ۔اور یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ وہب ان سترہ میں سے کون ہے ۔ان میں سے بہت سارے وہب جھوٹی حدیثیں گھڑنے والے اور کذاب دہر تھے ۔( میزان الاعتدال ،ج٣،ص ٣٥٠،٣٥٥) دوسری اور تیسری حدیث کے ضعف کی وجہ ''عبد اللہ بن لھیعہ '' کا وجود ہے ، ''ذہبی '' اس کے متعلق لکھتے ہیں : ''قال ابن معین ضعیف لا یحتج بہ قال الحمیدی عن یحییٰ ابن سعید انہ کان لا یراہ شیئا '' ( میزان الاعتدال ،ج٣،ص ٣٥٠،٣٥٥) ابن معین نے کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے اور اس کی نقل شدہ روایت سے استدلال نہیں کرسکتے یحییٰ بن سعید اسے کسی لائق بھی نہ سمجھتے تھے ۔ اب ہم یہاں اسناد کے بارے میں مزید اعتراضات سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک اہم نکتہ کو زیر بحث قرار دیتے ہیں اور وہ یہ کہ : تمام مورخوں سیرت نگاروں اور اسلامی محدثوں سے منقول ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے جسد اطہر کو حضور کے اصحاب کی صوابدید سے ان کی شریک حیات عائشہ کے حجرے میں دفن کیا گیا ۔اور صحابہ کرام نے اس کی دلیل کے لئے حضرت ابو بکر سے منقولہ حدیث بیان کی اور وہ یہ کہ پیغمبر جہان پر داعی اجل کو لبیک کہے وہاں ہی دفن ہوتا ہے ۔( مسند احمد ،ج١،ص ٧ ،صحیح ترمذی ،ج٢،ص ١٣٩) اب یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر واقعاً پیغمبر اسلام نے قبر کی تعمیر عمارت سے منع فرمایا ہے تو پھر ان کے جسد مبارک کو حجرے میں کیوں دفن کیا گیا ؟ انہیں وہاں کیوں دفن کیا گیا جہاں پر چھت تھی ۔بعض کج فہم ،کوڑھ مغز وہابی مصنفین کی یہ تاویل کتنی مضحکہ خیز ہے کہ : جو کچھ حرام ہے وہ قبر پر عمارت بنانا ہے ۔پہلے سے بنی ہوئی عمارت میں دفن کرنا حرام نہیں ہے ۔اور پیغمبر (ص) کو پہلے سے بنی ہوئی عمارت میں دفن کیا گیا ہے نہ یہ کہ ان کی قبر پر عمارت بنائی گئی ہے ۔( ریاض الجنة ،ص٢٦٩ ،تحریر مقبل بن الھادی الوادعی ) حدیث کی اس قسم کی تفسیر کا سبب ،خارج میں موجود ایک حقیقت کی توجیہہ کے سوا کچھ نہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ اگر وہابی اس حقیقت خارجی (یعنی پیغمبر اسلام (ص) کے حجرے میں دفن ہونا ) سے دوچار نہ ہوتے تو دونوں کی حرمت کا فتویٰ صادر کر دیتے ۔ اب ہمیں حق حاصل ہے کہ یہاں وہابیوں سے کچھ سوال کریں ۔ کیا میت کی قبر پر صرف عمارت بنانا حرام ہے ؟اور اگر کسی نے اس امر کی مخالفت کرتے ہوئے عمارت بنالی تو اسے باقی رکھنا اور مسمار نہ کرنا حرام نہیں ہے ؟ ... یا یہ کہ بنانا اور باقی رکھنا دونوں حرام ہے ؟ اگر پہلی شق کو تسلیم کرتے ہیں تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ سعودی حکومت نے طاقت سے کام لے کر آثار رسالت اور اہل بیت رسالت (ع) اور ان کے فرزندوں نیز صحابہ کرام کے مقبروں کو کیوں ویران کیا حالانکہ صرف قبر پر عمارت بنانا حرام تھا ۔اور جب ان کے مزار پہلے سے بنے ہوئے تھے تو پھر کس عنوان کے تحت انہیں ویران اور مسمار کیا گیا ۔بالفرض لوگوں نے قبور پر عمارت بنانے میں خطا کی تھی لیکن جب بن گئیں تو ان کا باقی رہنا حلال تھا انہیں کیوں تباہ و برباد کیا گیا ؟ علاوہ بریں یہ مفروضہ وہابیوں کے اسلاف کے فتاویٰ کے بر خلاف ہے ۔ ابن القیم اور ابن تیمیہ نے اس طرح کا فتویٰ نہیں دیا ہے ۔بلکہ ابن القیم کہتا ہے : ''یجب ھدم المشاھد التی بنیت علی القبور و لا یجوز ابقاء ھا بعد القدرة علی ھدمھا و ابطالھا یوما واحداً '' قبروں پر جو عمارتیں تعمیر ہوئی ہیں ،جائز نہیں ہیں اور جب ان کے مسمار و انہدام پر قادر ہوں تو انہیں اپنی حالت پر ایک دن بھی باقی رکھنا حرام ہے ۔ اس بیان اور اس عمل کے پیش نظر معقول نہیں ہے کہ وہابی سوال کی پہلی شق کو اختیار کریں ۔حتمی طور پر دوسری شق کو قبول کرتے ہوئے کہیں گے :قبر پر عمارت بنانا اور اسے باقی رکھنا دونوں حرام ہے ۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے جسد اطہر رسول (ص) کو چھت کے نیچے کیوں دفن کیا ؟ کیا یہ عمل درست تھا ؟ ٹھیک ہے کہ انہوں نے کوئی نئی عمارت تعمیر نہیں کی ۔لیکن عمارت کے اندر تو دفن کیا ۔ یہاں پہنچ کر وہابیوں کے لئے صرف ایک راستہ ہے بھاگنے کا اور وہ یہ کہ مسلمانوں کے عمل کی توجیہہ کرتے ہوئے یوں کہیں : اس عمارت کا باقی رکھنا حرام ہے جسے قبر پر بنایا گیا ہو ، لیکن اگر پہلے سے بنی ہوئی کسی عمارت میں میت کو دفن کیا جائے تو اس عمارت کو منہدم کرنا حرام نہیں ہے لیکن یہ تفریق ،ایک خارجی واقعیت ،''عمل مسلمین '' کی توجیہہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ سیرت مسلمین اور مذہب وہابیت کی کشمکش صرف یہی ایک مقام نہیں ہے جہاں عمل مسلمین اور وہابی نظریات کے درمیان تصادم پایا جاتا ہے ۔بلکہ اور بھی بہت سے مواقع ہیں جہاں وہابیت تصادم و کشمکش سے دوچار ہے ۔ وہ آثار نبی سے تبرّک حاصل کرنے کی مذمت کرتے ہیں اور مسلسل کہتے ہیں :مٹی اور پتھر کچھ نہیں کر سکتے ۔لیکن دوسری طرف مسلمانان عالم ان کے بوسے لیتے ہیں ۔کعبے کے پردے اور حجر اسود کو چومتے ہیں ۔اور اس درو دیوار سے تبرک حاصل کرتے ہیں۔ مسلمان اسی مٹی پتھر کو چومتے ہیں جو ان وہابیوں کی نگاہ میں بے خاصیت ہے ۔ وہابیوں نے قبور اولیاء کے جوار میں مسجد بنانا حرام قرار دیا ہے ۔مگر تمام اسلامی ممالک میں مسلمین ،مقبروں اور مزاروں کے پہلو میں مسجدیں بناتے ہیں ۔حتیٰ حضرت حمزہ کی قبر کے پہلو میں بھی مسجد تھی ۔جسے سعودی ستم کاروں نے ڈھادیا ۔اور ابھی تک پیغمبر اسلام (ص) کی قبر مسجد میں واقع ہے اور مسلمین آپ کی قبر کے اطراف میں نماز بجالاتے ہیں ۔
حقیقت پسندی کے بجائے دلیل سازی
=============================
وہابیوں نے جنت البقیع میں ائمہ علیہم السلام کی قبروں کے قبوں کو ویران و منہدم کرنے کے لئے ایک دوسری دلیل یہ گھڑی ہے کہ جنت البقیع کی زمین موقوفہ زمین ہے ۔لہذا اس زمین سے استفادہ کے لئے واقف کے مقاصد کا لحاظ رکھا جائے ۔اور اس ضمن میں ہر قسم کی مزاحمت کو ختم کر دینا چاہئے ۔بنابریں خاندانِ رسالت کی قبورکی عمارت جنت البقیع کے ایک حصہ کی زمین سے استفادہ میں مانع ہے کیونکہ بالفرض اگر صحن وحرم میںدفن ممکن ہو ،لیکن اطراف کی دیواروں اور ستونوں کے نیچے دفن کرنا ممکن نہیں ۔ اس بنا پر ایسی عمارتوں کو منہدم کرنا چاہیئے ۔ تاکہ مزاحمت سے بچیں اور واقف کے تمام تر مقاصد پورے ہوں ۔ جواب شک نہیں کہ اس قسم کا استدلال ،قبل از وقت فیصلہ کے سوا کچھ بھی نہیں اور وہابی جج یہ چاہتا ہے کہ بہر صورت خاندان رسالت کے آثار کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے اور اگر دلیل نہ ملے تو طاقت و دولت کے بل بوتے ان عمارتوں کو ڈھادیں ۔لہذا اپنے اس فیصلے پر طمع چڑھانے کے لئے دلیل سازی کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ اور وقف کے مسئلہ کو کھڑا کر دیا ۔ جبکہ سر زمین بقیع کا وقف ہونا وہم و گمان کے سوا کچھ نہیں ۔ کیونکہ : اولاً: کسی تاریخ و حدیث کی کتاب میں جنت البقیع کی زمین کے وقف ہونے کا ذکر نہیں ہے کہ ہم اس پر اعتماد کریں ۔بلکہ احتمال یہ ہے کہ بقیع کی زمین ،افتادہ زمین تھی جہاں اہل مدینہ اپنے مردوں کو دفن کیا کرتے تھے ۔اس صورت میں اس قسم کی سر زمین (مباحات اولیہ ) شمار ہو گی ۔اور اس میں ہر قسم کا تصرف جائز ہو گا ۔ گذشتہ زمانے میں جبکہ زمین کی حرص و لالچ ''خواہ آباد زمین ہو یا بنجر '' بہت کم تھی ۔اور عمران و آبادی کے وسائل بھی محدود تھے ۔دیہاتیوں نے شہروں کی طرف کوچ نہ کی تھی ۔اور زمین و ''زمین خوار ''نامی مسئلہ وجود میں نہ آیا تھا ۔ کتنی ہی ایسی زمینیں تھیں جن کا کوئی مالک نہ تھا ،افتادہ شکل میں باقی تھیں اور ''مباحات اولیہ '' میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔ ان ایام میں لوگ خواہ شہر کے ہوں یا دیہات و قصبے کے ، کچھ زمین قبرستان کے نام پر مختص کرتے تھے یا اگر کوئی شخص کسی زمین میں اپنے مردہ کو دفن کر دیتا تھا تو دوسرے افراد بھی اس کی تاسّی کرتے ہوئے اپنے مردوں کو وہاں دفن کرتے اور اسے قبرستان بنا دیتے تھے اور وہ زمین کسی کی ملکیت بھی نہ ہوتی تھی ،جس کے وقف کی ضرورت پڑے ۔ جنت البقیع بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہ تھی ،حجاز اور مدینہ میں زمین کی کوئی خاص وقعت نہ تھی اور مدینہ کے اطراف میں افتادہ زمین کے ہوتے ہوئے کوئی عاقل اپنی شخصی اور قابل کاشت زمین کو مردوں کے دفن کے لئے وقف نہیں کرے گا ۔جس علاقہ میں بنجر اور افتادہ ،زمینوں کی فراوانی اور حاصل خیز و قابل کاشت زمین کی قلت ہو یقینی طور پر قبرستان کے لئے اس زمین سے استفادہ کیا جائے گا ،جو افتادہ اور ''مباحات اولیہ '' سے تعلق رکھتی ہو ۔ اتفاقاً تاریخ بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہے ''سمہودی '' اپنی کتاب ''وفا ء الوفاء فی اخبار دار المصطفیٰ ''میں لکھتے ہیں : جنت البقیع میں سب سے پہلے عثمان بن مظعون صحابی نبی (ص) کو دفن کیا گیا ۔جب حضرت ابراہیم (ع) ،آنحضرت (ص) کے بیٹے کا انتقال ہوا تو حضو ر گرامی (ص) کے فرمان کے مطابق انہیںعثمان بن مظعون کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ بعد ازیں لوگ بھی مائل ہو گئے کہ اپنے مردوں کو جنت البقیع میں دفن کریں ۔چنانچہ درختوں کو کاٹا گیا ،( درختوں سے مراد خار مغیلاں کے درخت ہیں جو مدینہ کے گوشہ وکنار میںپائے جاتے ہیں ) اور ایک ایک حصہ ایک ایک قبیلہ سے مخصوص ہو گیا اس کے بعد وہ لکھتے ہیں : جنت البقیع میں ایک درخت بنام ''غرقد ''تھا ۔ جب عثمان بن مظعون کو وہاں دفن کیا گیا تو اس درخت کو کاٹ دیا گیا ۔( وفاء الوفاء ،ج٢،ص ٨٤ ) درخت غرقد وہ جنگلی درخت ہے جو مدینہ کے سحرائوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دکھائی دیتے ہیں ۔ اس عبارت سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جنت البقیع کی زمین افتادہ تھی اور ایک صحابی کے دفن ہونے کی وجہ سے ہر قبیلے نے اپنے لئے جگہ منتخب کر لی ۔تاریخ میں وقف اور واقف کے مقاصد اور اس کے منافع کا بالکل ذکر نہیں ہے ۔البتہ تاریخ سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ وہ مقام جہاں پر ائمہ اطہار (ع) کو دفن کیا گیا ،وہ جناب عقیل بن ابی طالب (ع) کا گھر تھا ۔ اور چار اماموں کے اجساد طاہرہ اس گھر میں دفن ہوئے جو بنی ہاشم سے متعلق تھا ۔ سمہودی لکھتا ہے :عباس بن عبد المطلب ،حضرت فاطمہ بنت اسد کی قبر کے نزدیک مقبرہ بنی ہاشم میں جو پہلے جناب عقیل کا گھر تھا ،دفن ہوئے ۔( وفاء الوفاء ،ج٢،ص ٩٦) نیز سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ انہوں نے حضرت ابراہیم ،نبی اکرم (ص) کے فرزند کی قبر کو محمد بن زید بن علی کے گھر میں دیکھا ہے ۔ وہ یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا (ص) نے سعد معاذ کے بدن کو ابن افلح کے گھر میں سپرد خاک کیا ،جو بقیع کے اطراف میں واقع تھا ۔ اور اس پر عمارت و گنبد بھی موجود تھے ۔ ان تمام عبارتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جنت البقیع کی زمین موقوفہ نہ تھی ۔ اور ائمہ اطہار کے اجسادہِ طاہرہ خود اپنے گھر میں سپرد خاک ہوئے ۔ اب یہاں پر سوال اٹھتا ہے کہ ان حالات کے پیش نظر ،کیا خاندانِ رسالت کے آثار کو مزاحمت اور وقف کے بہانے سے مسمار و ویران کیا جا سکتا ہے ؟ اگر ہم فرض بھی کر لیں کہ جنت البقیع کی زمین موقوفہ تھی تو کیا وقف کی کیفیت کے متعلق کچھ علم ہے ؟شاید واقف نے بڑی شخصیتوں کی قبور پر عمارت بنانے کی اجازت دی ہو ؟جب پتہ ہی نہیں تو پھر فعل مومن کو صحت پر حمل کرنا چاہئے ،اور ان پر مخالفت و عصیان کا الزام نہ لگائیں ۔ اس صورت میں گنبد وں اور عمارتوں کو منہدم و ویران کرنا حرام بیّن اور خلاف شرع ہو گا ۔ قاضی ،بن بلیھد ،اور اس کے ساتھ بخوبی جانتے تھے کہ وقف کا شوشہ ایک قسم کی دلیل سازی اور استدلال تراشی کے سوا کچھ نہیں ۔اور اگر اس قسم کی کوئی دلیل نہ بھی ہوتی تب بھی آثار رسالت کو ویران ضرور کرتے ۔کیونکہ یہ پہلی بار آثار رسالت کو ویران نہیں کر رہے تھے بلکہ ١٢٢١ ھ میں جب وہ پہلی مرتبہ مدینہ پر مسلط اور قابض ہوئے تو قبضہ کرتے ہی آثار رسالت کو منہدم کر دیا ۔عثمانی فوج کے ہاتھوں ان کی پسپائی اور مدینہ سے انخلاء کے بعد ۔یہ تمام قبریں پھر سے تعمیر کی گئیں ۔
No comments:
Post a Comment