Total Pageviews

Abdulamin BarkaTi Qadri

Wednesday, February 3, 2016

فتنہ اٹھے گا

فتنہ اٹھے ہے کس طرح اٹھ کے زرا دکھا کہ یوں
حشر بپا ہو کس طرح چل کے زرا بتا کہ یوں
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ فیس بک واٹسپ پر جن لوگوں کو نماز طہارت کے بھی مسائل نہیں آتے وہ بھی اپنے آپ کو علامہ بلکہ مناظر سمجھ کر چیلنج کردیا ہے
ان لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے بڑے بھی علمائے اہلسنت و جماعت(بریلوی) حضرات کے نام سن کر کاپتے اور ڈرتے ہیں،
ایسا ہی ایک جاہل نے بلکہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی پاگل کھانے سے بھاگ کر آیا ہوں، اور اسی لئے اس نے بغیر سوچے پاگل پن کی وجہ سے آل بریلویت کو چیلنج کر دیا
بےشک قرآن مجید ہدایت اور نور ہے، قرآن مجید کی ہدایت اور نور اسے ہی حاصل ہو سکتا ہے جو محبت رسول کی نگاہ سے قرآن کی آیتوں کے معنی، مطلب، مقصد اور مراد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،
آج ہر بدمذہب ہر شخص کو قرآن کی طرف بلا رہا ہے کہ آؤ میرا دین قرآن سے ثابت ہے اسی پرفتن زمانہ کی خبر حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے دی تھی، اور ایسے دجّالوں کا ذکر سرکار نے فرمایا تھا_
یَدعُونَ الی کِتَابِ اللہ، وہ گمراہ گروہ ہر ایک کو قرآن کی طرف بلائے گا،
📒 سنن ابی داؤد، کتاب السنہ، باب فی قتال الخوارج، حدیث ٤٧٦،جلد٤،صفحہ ٣٢٠،
اگر کوئی شخص حقیقی اور مجازی یعنی ذاتی اور عطائی کا فرق سمجھے بغیر قرآن مجید کے ظاہری الفاظ ہی کے معنی اخذ کر کے آیت کا مطلب اور مفہوم سمجھنے کی کوشش کرے گا تو وہ بڑی گڑبڑی کھڑی کر دےگا، بلکہ ہدایت پانے کے بجائے گمراہ ہوجائے گا،،
جیسا کہ دور حاضر کے وہابی، دیوبندی، تبلیغی، اہلحدیث، غیر مقلد وغیرہ باطل فرقے کے لوگ گمراہ ہوئے ہیں_
🔪🔪🔪🔪🔪🔪🔪🔪🔪🔪🔪🔪🔪🔪🔪
قرآن مجید کی آیت کا صحیح معنی، مطلب، مقصد، اور مراد سمجھنے کے لئے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ یہ آیت کون سی قسم سے ہے، کیوں کہ قرآن مجید کی آیت کی کئی قسم ہیں، مثلاً_
آیات محکمات، آیات متشابہات، آیات مبہمات، آیات مقدمات، آیات مؤخرات، آیات عامات، آیات خاصات، آیات ناسخات، آیات منسوخات، آیات مجملات، آیات مبینات، آیات مطلقات، آیات منطوفات، آیات معطوفات، وغیرہ وغیرہ
قرآن مجید کی آیت طے کر لینے کے بعد اب یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے؟ یعنی یہ آیت کیوں نازل ہوئی؟ کب نازل ہوئی؟ کس کے بارے میں نازل ہوئی؟ اور یہ سب معلومات حاصل کرنے کے لئے قرآن مجید کی تفسیر جاننا ضروری ہے_
👓👓👓👓👓👓👓👓👓👓👓👓👓👓👓
اللہ تعالٰی اور بندوں کی مشترکہ نسبتوں کے درمیان فرق نکالنے کے لئے اصولی بحث ذہن نشین فرمالیں تاکہ شرک کا وہم رفع ہو اور آیتوں کے مضامین کے درمیان جو بظاہر اختلاف نظر آرہا ہے وہ دور ہو، کیونکہ دونوں طرح کے مضامین کی آیتیں برحق ہیں اور دونوں پر ہمارا (اہل سنت و جماعت بریلوی) ایمان ہے_
جس طرح اللہ تعالٰی ذات پاک کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اللہ تعالٰی کی صفتوں میں بھی کوئی شریک نہیں، اللہ تعالٰی کی جتنی بھی صفتیں ہیں وہ تمام صفتیں ذاتی ہیں، ذاتی کا مطلب اصلی، حقیقی، نجی، اپنی ہیں
عطائی کا مطلب ہوتا ہے "عطا کیا ہوا" یعنی کسی کا دیا ہوا، ہبہ کیا ہوا، اللہ تعالٰی کی ہر صفت اور کمال ذاتی ہیں، عطائی نہیں_
🎓🎓🎓🎓🎓🎓
اگر ہم ذاتی اور عطائی کا فرق نہیں کریں گے اور ہر معاملہ کو ذاتی اور حقیقی معنوں پر ہی محمول کریں گے اور توحید نیز شرک کی حقیقت سے ناواقفیت کی بنا پر ہر معاملہ کو صرف حقیقی اور ذاتی صفت کے مطلب ہی میں دیکھیں تو شاید ہی کوئی مومن شرک کے فتوٰی سے بچے گا، کیونکہ ہم اپنی روزانہ کی گفتگو میں ایسے جملے اور الفاظ عام طور پر بولتے ہیں لیکن ہمارا ان جملوں اور لفظوں کا بولنا اور سننا عطائی اور مجازی معنوں میں ہی ہوتا ہے، ذاتی اور حقیقی معنوں میں ہرگز نہیں بولتے اگر ہم ان الفاظ اور جملوں کو حقیقی اور ذاتی صفت کے طور پر لیا تو یہ نتیجہ آئے گا اور کہ ہر آدمی کے گلے میں شرک کے فتوے کا تمغہ لٹکانا پڑےگا، چند مثالیں پیش خدمت ہیں_
اللہ تعالٰی کی صفت
١_ بیشک اللہ ہی سمیع و بصیر ہے، (بنی اسرائیل ١)
ہم نے انسان کو سمیع و بصیر بنایا ہے(الدہر ٢)
٢_ اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے موت کے وقت(زمر ٤١)
تمہیں موت کا فرشتہ وفات دیتا ہے جو تم پر مقرر کیا گیا ہے (سجدہ ١٠)
٣_ بے شک اللہ تعالٰی انسانوں پر نہایت مہربان بے حد رحم والا ہے(البقرہ)
(رسول اکرم) ایمان والوں پر بہت مہربان نہایت رحم فرمانے والے ہیں(توبہ/١٢٨)
قرآن مجید میں ان آیت میں اللہ تعالٰی کو سمیع و بصیر فرمایا گیا ہے اور بندوں کو بھی سمیع و بصیر کہا گیا ہے
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کو موت دینے والا فرمایا گیا ہے اور فرشتوں کو بھی موت دینے والا فرمایا گیا ہے
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کو انسانوں پر نہایت مہربان اور رحم والا فرمایا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو بھی نہایت مہربان اور رحم والا فرمایا گیا ہے
کیا قرآن مجید کی آیت آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا سکتی ہے؟ کیا قرآن مجید کی آیت دوسری آیت کا رد کر سکتی ہے؟ کیا قرآن مجید میں اختلاف پایا جا سکتا ہے؟
نہیں ہرگز نہیں
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے_
لو کان من عندِ غیرِ اللہ لو جدو افِیہِ اختلافا کثیرًا (پ٥،سورہ النساء،)
اب ہے کوئی وہابی، دیوبندی، سلفی، اہلحدیث، تبلیغی، غیر مقلد، جو ان آیت میں بغیر ذاتی اور عطائی کا فرق کئیے ہوئے ان کا صحیح مطلب و مفاہیم بیان فرما دیں
اب تو یہاں وہابی کو ضرور عطائی اور ذاتی میں فرق کرنا ہوگا اور فرق ماننا ہوگا کیونکہ اگر ایسا نہ کریں گا تو وہابی قرآن مجید کا منکر ٹھہریگا
الحمداللہ ہم سنی اہل سنت و جماعت بریلوی قرآن مجید کی تمام قسم کی آیتوں کو حق مانتے ہیں اور ان پر ہمارا ایمان ہے
تفصیل سے ذاتی اور عطائی کی بحث نہیں کر سکتا کیونکہ یہ موضوع بہت تویل ہے
بس فقیر نے اس نیت سے کہ کوئی مسلمان ان وہابیوں کے مکرو فریب میں نہ آئے اس لئے چند باتیں پیش کی ہے_

No comments:

Post a Comment