مولانا ایوب صاحب قبلہ آپ نے جہاد کے متعلق پوچھا تھا کہ ہندوستان میں عصری تعلیم حاصل کرنے والے بچوں سے جب لفظ " جہاد" کے تعلق سے پوچھا جاتا ہے تو وہ جواب دینے سے قاصر رہتے ہیں، تو میں ایک بہترین مثال کے زریعہ (ڈاکٹر اور مریض کی مثال) سے آسانی کے ساتھ سمجھاتا ہوں،
ڈاکٹر مریض کے علاج کے لئے اور بیماری دور کرنے کے لئے دوائیاں دیتا ہے، پرہیز بتا کر کڑی محنت کراتا ہے، طرح طرح کی تدبیریں خود بھی کرتا ہے اور مریض سے بھی کراتا ہے اس کو جہاد کہتے ہیں،
ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب مریض کا آپریشن کئے بغیر چارہ نہیں رہتا تو ان حالات میں ڈاکٹر ہتھیار اٹھا کر چیر پھاڑ کرنے اور خراب و فاسد چیزوں کو کاٹ کر پھینک دینے پر مجبور ہوتا ہے،
یہی "قتال" ہوا کہ جب مخالف کسی طرح بھی نہ مانیں، نہ خود چین سے اور امان سے رہے اور نہ رہنے دیں کبھی ہم پر چھاپہ ماردیں، عورت اور بچوں کی ہتیا کر دیں، کھیت کھلیان دھندے بیوپار برباد کر ڈالیں، عورت کی ایک ٹانگ ایک اونٹ کے پیر میں باندھ کر اور دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ کے پیر میں باندھ کر پھر دونوں اونٹوں کو دو مخالف سمت میں دوڑا کر بیچ سے چیر ڈالیں، اس عورت کا گناہ یہ ہو کی وہ صرف ایک معبود پہ ایمان کیوں لائی؟
وہ کفر و شرک کا کام کرنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہوئی؟
ایسے موقع پر قتال کی اجازت سرکاری طور پر ذمہ داروں کی طرف سے ملتی ہے، کوئی اکیلا آدمی قتال نہیں کر سکتا، کوئی انسان اگر قتال کرنے لگ جاے تو اسلام اس کو اس کی اجازت نہیں دیتا
★―~―~―~―~★
﷽⊂صوت الاسلام⊃﷽
صرف علما اھل سنت کے لیے
🍭🍭🍭🍭🍭🍭
فقیر مدینہ
عبدالامین برکاتی قادری
+919033263692
No comments:
Post a Comment