🔮طاہر القادری کی منھاج اور ہماری پیشرفت
📝 جائزہ، مشورہ و تجاویز (مکمل):
🖊از قلم:
محقق اھلسنت،
استاذ الحدیث و الفقہ،
قاطع و فاتح نجدیت و دیوبندیت،
امین فکر رضا،
حضرت علامہ حامد سرفراز قادری رضوی
(مدظلہ النوراني)
بتاریخ: 16-2-2016
================================
حضرت گرامی قدر نظر الاسلام مصباحی مدظلہ العالی نے ہمارے اکابرین حضرت تاج الشریعہ، حضرت شارح بخاری، حضرت محدث کبیر نفعنااللہ تعالی برکاتهم کے فتاویٰ جات امیر منهاج القرآن طاہر القادری کے متعلق بیان فرمائے ہم اپنے ان اکابرین کے ارشادات سے سو فیصد متفق ہیں، انہوں نے جو فرمایا قران و حدیث کے مطابق و موافق فرمایا، جس سے انکار وفرار کی کوئی گنجائش و راہ نہیں،
اسی ضمن میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں امید کرتا ہوں کہ ان پر توجہ فرمائی جائے گی،
دور نازک ہے اور فتنے بهیس بدل بدل کر اپنی جگہ بنا رہے ہیں،
ان فتنوں کی سرکوبی جوش و غضب کی بجائے ہوش و حکمت سے کی جائی،
طاہر القادری کی دو عدد وڈیوز اس گروپ میں ڈالی گئیں، ایک جہاں وہ کفار و مشرکین سے اتحاد کی باتیں کرکے کفر و شرک کی راہ ہموار کر رہا ہے اور دوسری جس میں رقص و سرور کی بزم بپا کر کے رسم رقص کی تجدید کرکے عہدہ مجددیت نبها رہا ہے، میرے مرشد کریم نائب محدث اعظم پاکستان سیدی ابو محمد محمد عبدالرشید قادری رضوی قدس سرہ العزیز سے جب میں نے استفسار کیا کہ طاہر القادری نے کہا ہے کہ " ہر شعبے کا مجدد ہوتا ہے " کیا یہ بات درست ہے؟ تو مرشدی نے برجستہ جواب ارشاد فرمایا کہ ہاں شرارت بهی ایک شعبہ ہے نا؟
تو موصوف اس شعبے کا مجدد ہے-
بتانا یہ مقصود تها کہ ان دو عدد وڈیوز میں دیکهئے کہ عوام کی کتنی تعداد ہے؟
اتنی عوام اس کے پاس کیسے آئی یا آتی ہے؟
اور کیا ہم آپس میں اظہارِ نفرت کرکے فارغ البال ہوگئے یا پهر ان بهٹکے ہوئے لوگوں کو بهی بچانا ہم پر حتی المقدور واجب ہے؟
بصد معذرت! عرض کرتا ہوں کہ الفاظ کا سخت و غیر سنجیدہ استعمال ان بهٹکے لوگوں کوکہ جو سنیت کے نام پر امیر منهاج کے جال میں پهنس گئے ہمارے قریب آنا کجا بات سننے بهی نہیں دیگا، اور جب تک حق کا پیغام بطریق احسن ان تک پہنچے گا نہیں تو یہ لوگ کفر و بد عقیدگی کی راہ سے کیسے ہٹ پائینگے؟
💠 ہم لوگ جذباتی جلد ہوجاتے ہیں اور پهر دلیل سے سمجهانے کی بجائے غیض و غضب کی بولی بولنا شروع کر دیتے ہیں اور ہمارا یہ انداز اس تعلیم یافتہ طبقے کو جو طاہر القادری کے چنگل میں پهنس چکا ہے اور اس طبقے کو منهاج القرآن کے پلیٹ فارم سے یہ پڑهایا بلکہ رٹایا جا چکا کہ یہ ملا و مولوی لوگ ہیں جهگڑالو، ہیں گالیاں دیتے ہیں وغیرہا ( یاد رہے یہ باتیں خیالی نہیں ہیں بلکہ حقیقت ہیں ہمیں متعدد بار اس طبقے سے بحث و مناظرہ کے دوران ان کا سامنا رہا) ہم سے یعنی عقیدہ حق اهلسنت سے دور کرنے میں معاون ہوتی ہیں،
اسی گروپ میں ایک صاحب نے فرمایا کہ اسے طاہر القادری نہ کہا جائے بلکہ نجس الپادری کہا جائے،
پهر ایک اور فاضل نے خاصا طویل القامت میسج اس کے کافر ہونے کا تحریر فرمایا، ایک صاحب نے اس کو حرامی وغیرہ لکها،
میں یہ نہیں کہتا کہ طاہر القادری کو معاذاللہ تعظیمی کلمات سے یاد کیا جائے بلکہ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت قاسم فیضان اعلی حضرت سیدی تاج الشریعہ مدظلہ العالی کا فتویٰ جو اسی گروپ میں دیا گیا کو دیکهیں اور رد کےلئے یہی انداز اختیار کیا جائے جو ہمارے بزرگوں کا ہے
💠اب چلیں اس سوال کی طرف جو شروع میں کیا تها کہ کثیر تعداد عوام کی اس شخص کے قریب کیسے آئی؟
تو گزارش ہے کہ آپ اس کی تنظیم کا طریقہ کار بغور دیکهیں،
انہوں نے تعلیمی ادارے بنائے اور یہ ادارے فقط بورڈ، اشتہار، یا چندے کی رسید تک محدود رہنے والے نہیں بلکہ فعال،
جن میں دینی علوم مثلاً درس نظامی و عصری علوم جسے ہم عام بولی میں انگریزی تعلیم کہتے ہیں، ان اداروں میں سہولیات کی بہتات، اور طلبہ و طالبات کی کثرت ہے، اب بتایا جائے کہ ایک طالب علم جو پہلی کلاس سے لیکر ایم اے، ڈبل ایم اے، ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں انہیں کے ادارے سے پائے اور پهر اس کے اداروں کی اسناد کی اہمیت ملک و غیر ممالک میں تسلیم کیجاتی ہوں اور اس طالب علم کو یہ سب کچھ بحالت غربت مفت مل رہا ہو تو آج کا طالب علم کل کا ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، لکچرر، وغیرہا ہے تو یہ اس کرسی پر بیٹھ کر کس کے گن گائے گا؟
تصانیف کے شعبے میں اس کی تحریک نے بہت کچھ کیا، دهڑا دهڑ اس کی کتب شائع کرتے ہیں ،مجهے ہند کا پتہ نہیں یہاں پاکستان میں سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں اس کی کتب رکهنے کی باقاعدہ سند جاری ہوتی ہے بلکہ ہر کتاب کے سر ورق یا بیک سائیڈ پر لکها ہوتا ہے،
اب یہاں ایک چهبتا ہوا سوال اپنے آپ سے اور ہاتھ جوڑ کر آپ سب سے پوچهنا چاہتا ہوں کہ مجدد اعظم سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کا وصال 1921 میں ہوا اور اب 2016 ہے یعنی ایک صدی ہوا چاہتی ہے، تو کیا ان 95 سالوں میں ہم سیدی اعلی حضرت رحمہ کی ایک ہزار سے زائد کتب کو شائع کر سکے؟
ہمارے ملک میں ایک ادارہ بنا ہے ادارہ تالیفات اشرفیہ کے نام سے
یہ ادارہ سوائے تهانوی کی کتب و رسائل کے کچھ نہیں چهاپتا، بلکہ یہاں تک کہ تهانوی وعظ و خطوط بهی کتب و رسائل کی صورت میں شائع کرتا ہے. ...
💠صرف یہ باور کرانے کےلئے کہ " تهانوی نے بهی بہت تیر مارے ہیں"
میں بد دلی و مایوسی کی طرف نہیں لا رہا مگر جو حقیقت ہے اس سے چشم پوشی تو کی جاسکتی ہے مگر انکار نہیں،
ایک طاہرالقادری کیا کتنے لوگ ہیں ہمارے صفوں کے بیچ جو احکام شرع متین میں رد و بدل کر رہے ہیں مگر کیا صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمہ کی کتاب بہارشریعت کو ہی ہم اس انداز میں عام کر پائے جو کہ اس کا حق تها؟
خیر بات ہو رہی تهی طاہر القادری کی کتابوں کے متعلق اگرچہ ہمیں یہ بهی معلوم ہے کہ سب اس کی ذاتی نہیں ہیں بلکہ اس نے ایک ٹیم اس کام کے واسطے بهاری بهرکم تنخواہ پر رکهی ہوئی ہے جو بڑی سرعت سے کام کرتی ہے، اور لاکهوں کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں،
اب ہم اپنی حالت زار دیکهیں؛
سیدی اعلی حضرت رحمہ نے فرمایا تها کہ اہل قلم کو نذرانے دیکر مذهب حقہ کی تائید اور فرقہائے باطلہ کی تردید میں کتابیں لکهوا کر اسے شائع کرا کر عوام تک پہنچائی جائیں-
صاف کہئے کہ اہل قلم کہ جو مستند لکهتے ہیں ان کی ہمارے ہاں کتنی تعداد ہے؟
جو ہیں ان کو کتنی مالی پریشانیوں کا سامنا ہے؟
اور پهر اپنے خون جگر سے لکهتے ہیں تو شائع کرنے والے کتنے ہیں؟
میں نے شہر لاہور کے مکتبوں پر کتابوں کے مسودے لئے منت و سماجت سے چور ہوکر پبلشرز کے سامنے کتنے ہی اہل قلم دیکهے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں دن رات کی محنت شاقہ سے لکهی گئی کتاب نہیں بلکہ کاسہ گدائی ہے،
پهر کہاں نذرانے دیکر لکهوانا اور کہاں منت و سماجت سے لکهے گئے کو چهپوانا؟ اور پبلشر کی سخاوت کا یہ انداز کہ ہم دس بیس نسخے دینگے آپ کو اور بس،
پهر ایک کتاب چهپتی بهی کتنی تعداد میں ہے؟ بہت ہی زیادہ کہئے تو " ایک لاکھ " اگرچہ ایسا نہیں چلو مان لیا ایک لاکھ
میں اپنے ملک کی بات کروں تو اس کی آبادی محتاط اندازے کے مطابق انییس سے بیس کروڑ ہے
بتائیے! ایک لاکھ بهی ہو تو کیا بیس کروڑ کو کفایت کر پائے گی؟
💠 ہمارے ہاں محافل و مجالس کے اشتہارات آرٹ پیپر پر شائع ہوتے ہیں، میں نے ممبئی سے شائع ہونے والے کتب و رسائل کو دیکها ہے جو فقط اوراد و وظائف پر مشتمل تهے اور آرٹ پیپر کہ جو عام کاغذ کی نسبت مہنگا ہوتا ہے پر تهیں، اب تشہیر کےلئے مہنگے ترین ذرائع اختیار کئے جاتے ہیں، اور محافل و مجالس کا حال دیکهئے ہمارے ہاں تو صورتحال بہت زیادہ خراب ہوچکی، عوام جو محفلیں منعقد کر رہے ہیں ان میں تقریباً علمائے حقہ کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے، نقیب محفل، نعت خواں، اور وہ بهی " ٹی وی " والے جو ایک محفل میں جلوہ دکهانے پر بیس ہزار سے لیکر ایک ڈیڑھ لاکھ تک وصول کرتے ہیں، چہروں سے داڑھی غائب اور گورے بدن پر بھڑکیلے لباس زیب کئے ہوئے اور کلام انا للہ و انا الیہ راجعون
کفر تک سے اجتناب نہیں،
دوسری جانب ہمارے مدارس میں شیخ الحدیث کے عہدے پر فائق شخصیت، بارہ بارہ گهنٹے مدرسے میں مستقبل کے معماروں کو تیار کرنے والے مدرسین کی کیا حالت ہے؟
بذلہ سنجی، جملہ بازی، لے سر تان کے جوہر لٹانے والے واعظین پر اور نقیبوں و نعت خوانوں پر لاکهوں لٹائے اور اڑائے جا رہے ہیں مگر مدرس وہ بهی درس نظامی کا مدرس پورے ایک ماہ میں بهی اسے اتنے دئیے جاتے ہیں؟
بتائیں پهر ہماری نسلیں " مدرس " اور شیخ الحدیث بننا چاہیں گی یا واعظ و نقیب و نعت خواں؟ ؟؟
جامعہ اشرفیہ کے ایک غیرت مند اور مسلک اعلی حضرت پر قائم رہنے والے عالم دین کو حق پر قائم رہنے کی پاداش میں سوسائیٹی سے خروج کی خبر اور پهر اس خبر پر گرما گرم بحث میں نے کئی گروپس میں دیکهی، مگر ہائے افسوس مجهے کثیر گروپس میں ایک بهی ایسا میسج نظر نہیں آیا کہ " کیا ہوا جو ایک نشیمن سے خروج ہوا ہم ایسے راسخ العقیدہ عالم کو نیا ذاتی گهر لکیر دیتے ہیں "
یہ ایک میسج نہ جانے فکر معاش میں ڈوبے ہوئے اور اس بد بلا یعنی فکر معاش کے خوف میں مبتلا اہل علم کی قوت و ہمت کا سبب بنتے
" ذرا نم ہو تو مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی "
💠بات طویل ہوگئی، آپ حضرات ذی وقار کی آنکهوں پر بار ڈالا اس پر معذرت خواہ ہوں، کیا کیا جائے دل روتا ہے اپنی حالت کو دیکهکر بقول شاعر
اس گهر کی حفاظت اب کون کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے-
بات طاہرالقادری کی ہو رہی تهی،
اس کے شر و فتن کی آگ کو سرد کرنے کے دو بڑے طریقے ہیں،
ایک کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ اپنے قریب لایا جائے، خصوصاً تاجر، ڈاکٹرز، مل آنرز، وکلاء، پروفیسرز، سکول و کالجز کے اساتذہ، سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ہر طبقے کے افراد پر عقائد کے معاملے میں حکیمانہ انداز سے محنت کیجائے،
صحت مند لٹریچر ان تک پہنچایا جائے، اکابرین اهلسنت کی صحبت تک رسائی دلائی جائے، ان سے جلسوں کے علاوہ نجی علمی نشستوں کا اہتمام کیا جائے، نماز روزے کی طرف راغب کیا جائے، یوں کہہ لیجئے کہ ان کے گرد سچے عقیدے کا حصار قائم کردیا جائے کہ بد مذہب و بد عقیدہ لاکھ کوشش سے بهی جسے توڑ نہ سکے-
دوسرا! زیادہ سے زیادہ دینی و دنیاوی تعلمی ادارے قائم کئے جائیں، جو پہلے سے قائم ہیں انہیں فعال کیا جائے، یہ تعلیمی ادارے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جدید طرز سے ہم آہنگ ہوں، مثلاً پٹهے پرانے کپڑوں کی بجائے صاف ستهرا لباس بہترین یونیفارم، اگر غریب طلبہ ہوں تو اہل ثروت سے ان کے لباس وغیرہ کا اہتمام کرایا جائے، کهانے کا نظام بہتر ہو، شکستہ پیالی، ٹوٹی ہوئی چهابی ( روٹی رکهنے کا برتن) میل کچیل و تعفن سے لبریز کچن نہ ہو، صاف دستر خوان اچهے برتن، اجلا و نفیس مطبخ ہو، نصاب تعلیم بہتر سے بہترین ہو، خصوصاً اساتذہ کا سارا انحصار انہیں پر ہے ماہر ہوں اور ان کے وظائف پر کشش ہوں، سکولز کا قیام ہونا چاہئے کہ آج کل زیادہ رجحان مدارس کی بجائے سکول کی تعلیم پر ہے، ہاں سکول میں دینی تعلیم ہو، عمارت خوبصورت ہو، سکول میں فیس بهی مقرر کیجائے کہ مفت کی قدر کم ہوتی ہے،
جمعہ و محافل کے خطاب موضوع باندھ کر ہوں اور ان موضوعات سے وفا بهی ہو،
💠طالبات کے مدارس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، ہر ہر محلے میں چهوٹے چهوٹے غیر اقامتی مدارس بنائے جائیں ،وسیع و عریض عمارت ( بلڈنگ) کی آس پر بلا وجہ وقت ضائع کردیا جاتا ہے، میرے دادا مرشد قطب زماں محدث اعظم پاکستان سیدی و سندی ابوالفضل محمد سردار احمد قادری رضوی قدس سرہ العزیز خلیفہ حضور سرکار مفتئ اعظم اور وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جنکے متعلق سرکار حجتہ الاسلام الشاہ حامد رضا خان قدس سرہ العزیز نے اپنے جنازے کی امامت کی وصیت فرمائی اور آپ نے ہی حضور حجتہ الاسلام کا جنازہ مبارکہ پڑهایا فرماتے تهے کہ " پڑهنے پڑهانے کا نام مدرسہ ہے " چاہے درخت کے نیچے ہی کیوں نہ ہو، اور آپ نے
" دارالعشق بریلی شریف" میں ٹین کے چهپر تلے علم دین پڑهایا،
اس لئے بلڈنگ کی امید پر بچوں کا مستقبل برباد نہ کیا جائے، محلے میں کوئی مکان یا بڑا کمرہ کرائے پر لے لیا جائے، قابل راسخ العقیدہ معلمہ کا اہتمام کرکے کلاسز کا آغاز کردیا جائے، تهوڑے خرچ میں مدرسہ قائم ہوجائے گا، سیدی محدث اعظم پاکستان قدس سرہ العزیز فرمایا کرتے تهے کہ لائلپور ( موجودہ فیصل آباد) میں مختلف کارخانے اور فیکٹریاں ہیں جہاں مختلف اشیاء تیار ہوتی ہیں اس فقیر کا بهی ایک کارخانہ ہے جہاں مولوی اور عالم تیار ہوتے ہیں، میرے عزیز! محلے محلے کارخانے کهول دئیے جائیں،
یاد رہے! آج کی " بیٹی " کل کی " ماں " ہے ایک کنبے کی سربراہ ہے اگر اس بیٹی کو ابتداء ہی سے صحت مند عقیدے کی غذا مل گئی تو ان شآاللہ تعالی اس کی نسلیں بهی اسی عقیدہ حق پر قائم رہیں گی، ہفتہ وار، ماہانہ اصلاحی و تبلیغی اجتماع محلوں کئے جائیں جس میں عالمہ معلمہ عورتوں کے عقیدہ و اعمال کی اصلاح کریں،
جو لڑکا یا لڑکی آپ کے مدرسے یا سکول میں علم پڑهیں گے، غربت کی حالت میں مفت علم کا نور پائیں گے اس طالب علم کا گهرانہ کبهی آپ سے جدا نہیں ہوگا، ممنون و مشکور رہے گا،
یہ بهی ایک طریقہ ہے لوگوں کو قریب کرنے کا-
💠 ہم لوگ " مسلک اعلی حضرت " کی اصطلاح کا بکثرت استعمال کرتے ہیں، اس اصطلاح پر حاسدین و منکرین اعتراضات بهی کرتے ہیں، ہمارے اکابرین نے ان اعتراضات کے جوابات بھی دئیے اس فقیر نے بهی اس پر بہت بار لکها، ایک جوابی مضمون تو اسی گروپ میں بهی شامل ہوا،
مگر سوال یہ ہے کہ " کیا ہم سیدی اعلی حضرت امام اهلسنت مجدد اعظم قدس سرہ العزیز کا تعارف اس انداز پر پیش کرسکے جو اس عنوان کے شایان شان تها؟
اسی ماہ صفر میں ایک سائینس کالج میں مجهے سیدی اعلی حضرت رحمہ کے متعلق بیان کرنے کا شرف حاصل ہوا، میں نے امام اهلسنت رحمہ کی علوم جدیدہ پر مہارت و دسترس کو آپ ہی کی کتب کی روشنی میں بیان کیا، واپسی پر اس کالج کے پرنسپل صاحب نے فون پر بتایا کہ کالج کے اساتذہ میں ایک دیوبندی بهی تها اس نے ساتهی اساتذہ سے کہا کہ مبارک ہو آپ کی یہ مجلس قبول ہوئی میں دیوبندی تها اور سیدی اعلی حضرت کا مخالف لیکن مجهے آج معلوم ہوا کہ " امام احمد رضا خان " کون ہیں، لہٰذا میں اپنے گزشتہ عقیدہ باطلہ سے توبہ کرتا ہوں،
اسی صفر المظفر میں ایک شہر کے وی آئی پی ہوٹل میں امام اهلسنت کی یاد میں منعقدہ تقریب میں اس سگ درگاه رضا کو بیان کی سعادت ملی، سیدی اعلی حضرت رحمہ کا عشق، اور اصلاح معاشرہ میں آپ کا کردار،
موضوع تها، خطاب جیسے ہی ختم ہوا ایک سفید ریش بزرگ کهڑے ہوئے اور قسم کها کر کہنے لگے کہ مجهے آج معلوم ہوا کہ اعلی حضرت کون ہیں اور انکی دینی خدمات کیا ہیں-
یہ دو مثالیں اپنی فضیلت و منقبت کےلئے نہیں بیان کی، بلکہ بتانا مقصود تها کہ صحیح و درست انداز میں " تعارف سیدی اعلی حضرت رحمہ" عوام تک پہنچا دیا جائے تو کیا اثر ہوتا ہے،
اور یقین کیجئے گا کہ اس بزرگ کی بات آج بهی جھنجھلا کے رکھ دیتی ہے کہ ہم لوگوں نے اتنی غفلت کیوں کی اپنے محسن کے تعارف میں؟
اور اب پهر بصد معذرت!
عرض کرنے کی جرات کرتا ہوں کہ ہم نے صرف یہ انداز اختیار کیا کہ امام احمد رضا نے پرخچے اڑا دئیے، گستاخوں کا سر قلم کردیا، کلیجہ چیر کر رکھ دیا، کفر کا فتویٰ دیا، اس کو اس کو کافر ملعون، خبیث کہا وغیرہا
یقیناً یقیناً یقیناً سیدی اعلی حضرت رحمہ نے ناموس رسالت کی مقدس سرحد پر پہرہ دیا، گستاخوں، بیدینوں، بد مذ ہبوں،
کا رد بلیغ فرمایا، مگر یہ رد کیا کس طرح؟ طریقہ کیا تها؟
💠سخت الفاظی سے؟ ابے تبے کہہ کر کے؟ معاذاللہ! گالی گلوچ سے؟
ہرگز نہیں واللہ ہرگز نہیں
رضا کا نیزہ، رضا کی تلوار، رضا کا وار کیا تهے؟
قرآن و حدیث، اقوال صحابہ کرام، تابعین، اولیائے کاملین، آئمہ مجتہدین کی تصریحات، نصوص فقہ،
خدا کی قسم! جب ہم ان دلائل و براہین کو عوام کے سامنے لائیں گے جو ہمارے " امام " نے بائیس بائیس گهنٹے جاگ کر، ترک طعام اختیار کرکے، درد سر، آشوب چشم، درد گردہ جیسے امراض کے باوجود، مذہب والے حاسدین کی تکالیف سہہ کر، اپنی تمام آمدن اشاعت دین پر خرچ کرکے
ہمیں عطا کئے، تو پهر آپ کو یا مجھ کو کسی محنت شدیدہ کی حاجت نہ رہے گی، میرے امام کا قلم حقیقت رقم خودبخود دلوں میں گهر کرجائے گا، دنیا اپنی جبین نیاز در امام پر خم کر دے گی،
دلوں پر چڑهے غلاف پهٹ کر گر جائیں گے، عرب و عجم میرے امام کے گیت گائیں گے، پهر کوئی فتنہ اٹهے یا فتنہ گر،
کسی کا اثر ان قلوب پر نہیں ہوگا جن دلوں میں " احمد رضا"
بستا ہے،
خدارا! ہم ہمت کریں، وقت بہت بیت چکا بلکہ برباد ہوچکا، بدعقیدگی نے بہت گهر لوٹ لئے، بد اعمالیوں نے روحانی بستیوں کو کهنڈرات میں بدل دیا، ہائے ہائے ہمارے ہوتے ہوئے کوئی فرد گستاخ بن جائے تو اس ہونے کا کیا فائدہ؟
اب لٹانے کو بچا ہی کیا ہے؟ دیکهو دیکهو! دور کیا چال چل رہا ہے؟
سوچو سوچو! ہمارے آقائے نعمت سرکار اعلی حضرت رحمہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں،
ہاں ہاں! وہ ہمیں بیدار ہونے کا فرما رہے ہیں،
سنو سنو! وہ کچھ فرما رہے ہیں
سونا جنگل رات اندھیری چهائی بدلی کالی ہے.
سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکهوالی ہے-
آو آو! ہاتهوں میں ہاتھ ڈال کر اپنے امام کے حضور حاضر ہوتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ اے عشق کے دیپ جلانے والے، اے ہم خسیسوں کو سینے سے لگانے والے، اے ہمیں " وفا" کا سبق سکهانے والے، اے رتیا جاگ گزارنے والے، اے ہم بهولی بهیڑوں کو ریوڑ میں رکهانے والے، اے چارہ گر، اے مسیحا،
اے طبیب ہر مرض، اے میرے امام ،اے ہمارے امام، اے ہماری جان، ہمیں معاف کردے!
ہم سے بهول ہوئی، ہم غفلت میں رہے، قسم ہے تیرے دل میں موجود " عشق " کی کہ ہم ساری زندگی تیری گلیوں میں پلکوں سے جاروب کشی بهی کرتے رہیں تو تیرے احسانوں کا بدل نہیں،
ہم اپنے دل بهی سینوں سے نکال کر تیری گلی کے " سگوں " کے آگے ڈال دیں تو حق ادا نہیں ہوتا،
اپنی جان یہ اک ادنی سی شے جان
تیرے قدموں پہ نچهاور کردیں تو حق تو ہے کہ حق ادا نہ ہوا"
کیونکہ تونے ہمیں وہ عطا کیا جس کا بدلہ ہم نہیں چکا سکتے وہ عطا ہے کہ " ہمیں گستاخی "
سے بچا لیا، بے ادبی سے بچا لیا، روز حشر اپنے آقا ہمارے مولی مصطفے جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی نگاہ اقدس سے گرنے سے بچا لیا،
اے میرے امام! اے میری جان!
ہم عہد کرتے ہیں کہ اب سستی نہیں ہوگی، اب غافل نہیں رہیں گے، کام کریں گے بس کام وہ کام جس کام کےلئے آپ نے بڑی بارگاه میں عرض کی تهی کہ
کام وہ لے لیجئے تم کو جو راضی کرے
ٹهیک ہو نام رضا تم پہ کروڑوں درود-
🖊( سگ سگان کوچہ رضا
حامد سرفراز قادری رضوی غفرلہ)
⭕ختم شد
=========================
ماشاء اللہ
ReplyDeleteبہت عمدہ تجاویز ہیں. ان پر عمل کرنا شاہیے. اہل سنت کے لیے بہت مفید رہت گا.