Total Pageviews

Abdulamin BarkaTi Qadri

Thursday, February 18, 2016

کفر کے اقسام

کفر کے اقسام اور تکفیر کے بارے میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کُفر کی اَقسام اور تکفیر کے بارے میں سُوال جواب
سُوال:
کَلماتِ کُفر کی کتنی قسمیں ہیں؟
--------------------------
جواب:
کَلِماتِ کُفرکی دوقسمیں ہیں
(1)لُزُومِ کُفْر
(2)اِلتِزامِ کفر۔
چُنانچِہ صَدْرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّريقہ حضرتِ علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:
اقوالِ کُفریہ دو قسم کے ہیں
(1) ایک وہ جس میں کسی معنئ صحیح کا بھی اِحتِمال (یعنی پہلو)ہو
(2)دوسرے وہ کہ اس میں کوئی ایسے معنیٰ نہیں بنتے جو قائل کو کُفر سے بچاوے ۔
اِس میں اوّل کو لُزُومِ کُفْر کہا جاتا ہے اور قسم دُوُ م کواِلْتِزامِ کُفر۔
لُزُومِ کفرکی صورت میں بھی فُقَہائے کرام(رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام)نے حکمِ کُفر دیا مگر مُتَکَلِّمِین(1)(رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین)اِس سے سُکوت کرتے (یعنی خاموشی اختیار فرماتے )ہیں۔اور فرماتے ہیں جب تک اِلتِزام کی صُورت نہ ہو قائل کو کافِر کہنے سے سُکوت کیا جائیگا اور اَحوَط(یعنی زِیادہ محتاط)یِہی مذہبِ مُتَکَلِّمِین(رَحِمَہُمُ اللہ المُبین)ہے۔
واللہ اعلم.
(فتاوٰی امجدیہ ج4 ص 512،513)
========================
(1)جو عُلمائے کرام علمِ کلام یعنی علمِ عقائد کے ماہِر ہوتے ہیں اور نقلی یعنی شرعی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل سے بھی عقائد کو ثابت کرتے ہیں انھیں مُتَکَلِّمِین کہا جاتا ہے۔
========================

لُزُوم و اِلتِزام کی تفصیل
------------------
سُوال:
لُزُومِ کُفْر اور التزام کُفر کی مزید تفصیل بیان کردیجئے ۔
---------------------------------------------
جواب:
لُزُومِ کُفْر کی تعریف کا خُلاصہ یہ ہے کہ وہ بات عَینِ کُفْر نہیں مگر کُفْرتک پُہنچانے والی ہے اوراِلْتِزَام کُفْر یہ ہے کہ ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا صَراحَۃً (یعنی واضح طور پر)خِلاف کرے۔

چُنانچِہ ميرے آقااعلیٰ حضرت ، امامِ اَہْلِ سنّت، مُجَدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرّحمٰن لُزُوم واِلْتِزَام کے مُتَعَلِّق فرماتے ہیں:
سَیِّدُالْعٰلَمینَ مُحمَّدُ، رَّسولُ اللہ(عَزَّوَجَلَّ و)صلی اللہ تعالیٰ عليہ واٰلہ وسلَّم جو کچھ اپنے رب (عَزَّوَجَلَّ)کے پاس سے لائے ان سب میں ان کی تصدِیق کرنا اور سچےّ دل سے ان کی ایک ایک بات پر یقین لانا ایمان ہے اور مَعَاذاللہ (عَزَّوَجَلَّ)ان میں سے کسی بات کا جُھٹلانا اور اس میں ادنیٰ شک لانا کُفْر (ہے )۔ پھر یہ انکار جس سے خدا مجھے اور سب مسلمانوں کو پناہ دے ،دو طرح ہوتا ہے
(1)لُزُومی
(2)اِلْتِزَامی۔
اِلتِزَامی یہ کہ ضروریاتِ دین سے کسی شئے کا تَصرِیحاً (یعنی صاف صاف )خِلاف کرے یہ قَطْعاً اِجماعاً کُفر ہے اگرچِہ(خِلاف کرنے والا)نامِ کُفْر سے چِڑے اور کمالِ اسلام کا دعوٰی کرے ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے طائِفہ تالِفَہ نَیا چَرہ(یعنی ہلاک وبرباد ہونے والے نَیچری فرقہ والوں) کا ، وُجُودِ مَلَک و جِنّ و شیطان و آسما ن و نارو جِنَان و مُعجِزاتِ انبیاء علیھم افضل الصلوٰۃُ والسلام سے اُن مَعانی پر کہ اہلِ اسلام کے نزدیک حُضُور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم سے مُتَوَاتِرہیں انکار کرنا اور اپنی تأوِیلاتِ باطِلَہ و تَوَہُّماتِ عاطِلہ (یعنی جھوٹی تاویلوں اور خالی وَہموں) کو لے مرنا۔نہ ہرگز ہرگز ان تاویلوں کے شَوشے انہیں کُفْرسے بچائیں گے ،نہ مَحَبَّتِ اسلام و ہمدرد ی کے جھوٹے دعوے کا م آئیں گے ۔۔۔۔۔ اور لُزُومی یہ کہ جو بات اس نے کہی عینِ کُفْرنہیں مگرمُنْجِربِکُفر (یعنی کُفْر کی طرف لے جانے والی ) ہوتی ہے، یعنی مَآلِ سُخَن ولازِمِ حُکْم کوترتیبِ مُقدَّمات و تَتْمِیم ِتَقریبات کرتے لے چلئے تو انجامِ کار اس سے کسی ضَرورئ دین کا انکار لازِم آئے۔
(فتاوٰی رضویہ ج 15 ص 431)

اعلیٰ حضرت کے فتوے کا آسان لفظوں میں خلاصہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سُوال:سرکارِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارَک فتوے کے بیان کردہ اقتِباس کاآسان لفظوں میں خلاصہ کر دیجئے۔

جواب:ميرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اَہلِ سنّت، مُجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن اپنے مبارَک فتوے کے مذکورہ اقتِباس میں ایمان و کفر کی تعریف بیان کرنے کے بعد کفر کی دو اقسام لُزُوم و اِلتِزام(اِلْ۔تِ۔زام) کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(1) اِلتِزامِ کفر یعنی ضَروریاتِ دین میں سے کسی ایک چیز کا بھی خِلاف کرنا۔چاہے وہ خلاف کرنے والا بظاہر اسلام کا کیسا ہی شیدائی بنتا ہو اور بے شک کفر کے نام سے چِڑتا ہو مگر اس پر حکمِ کفر ہے اور وہ اسلام سے خارج ہے۔ جیسا کہ نَیچری فرقہ والے جو کہ بظاہر اسلام اور ملّتِ اسلامیہ کی مَحَبتَّوں کا خوب دم بھرتے اور بڑھ چڑھ کر اپنے آپ کومسلمانوں میں کَھپاتے ہیں مگرکئی ضَرور یا تِ دین کا خلاف کرتے ہیں مَثَلاً ملائکہ ، جِنّات ، شیطان، آسمان، جنّت ، دوزخ اور معجزات انبیاء ِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے وہ مَعانی جو کہ ہمارے مکّی مَدَنی آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بتواتُر ثابِت ہیں اور سبھی اہلِ اسلام کا جن پر اتِّفاق ہے ان کو تسلیم کرنے کے بجائے اُلٹی سیدھی تاویلوں کے ذریعے اپنے من گھڑت جُداگانہ معنیٰ بیان کرتے ہیں۔ لہٰذا نَیچریوں کو ان کے محبّتِ اسلام کے دعوے ہرگز کفر سے نہیں بچا سکتے
(2)لُزُومِ کُفر عینِ کُفر تو نہیں
ہو تا مگر کفر تک لے جانے والا ہوتا ہے۔ یعنی کلام کا انجام اور حکم کا لازم کفرِ حقیقی ہے۔ مراد یہ کہ اگر مُقَدَّمات کو ترتیب دیا جائے اور تقریبات کو مکمل کرتے جائیں تو بالآخر کسی ضروری دینی کا انکار لازم آئے۔اس کی بَہُت سی صورتیں ہوتی ہیں ۔
----------------------------------
اختِلافی کُفر کے بارے میں حُکم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سُوال:
ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جس کے ٭قول٭ کے کُفر ہونے نہ ہونے ميں آئمۂ دِین یعنی فُقہا اور مُتَکِلّمین کا اِختِلاف ہو۔
-------------------------------
جواب:
ایسا شخص اگر چِہ اسلام سے خارِج نہیں ،تاہَم اس کیلئے توبہ وتجدیدِ ایمان و نکاح کا حکم ہے۔
چُنانچِہ ميرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اَہلِ سنّت، مُجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:
پھر جبکہ اَئِمهٔ دِین (یعنی فُقہا اور مُتَکِلّمین )ان کے کفر میں مُختَلف ہوگئے تو راہ یہ ہے کہ اگر اپنا بھلا چاہیں جلد اَز سرِنَو کلمۂ اسلام پڑھیں ۔ چندسُطُور بعد مزید فرماتے ہیں:
اس کے بعد اپنی عورَتوں سے تجدیدِ نکاح کریں کہ کفرِخِلافی(یعنی جس قول یا فعل کے کُفر ہونے میں فُقہا اور مُتَکِلّمین کا اِختِلاف ہو اُس) کا حُکم یِہی ہے۔
( فتاوٰی رضویہ ج 15ص 445 ، 446)
========================
کُفرِ لُزُومی میں اَعمال برباد ہو جاتے ہیں یا نہیں؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سُوال:
جس کے کسی قول یا فعل کے کفر ہونے میں اَئمّہ دین یعنی فُقہا اور مُتَکِلّمین کا اِختِلاف ہو، کیا اُس کے بھی تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں؟
---------------------------------
جواب:نہیں۔ ک
یوں کہ یہ کُفرِلُزُومی ہے اور ایسا شخص اسلام سے خارِج نہیں ہوتا ، اِس کا نکاح بھی نہیں ٹوٹتا اس کی بیعت بھی برقرار رہتی ہے اور اس کے سابِقہ اعمال بھی برباد نہیں ہوتے۔ البتّہ اس کیلئے تجدیدِ ایمان و تجدیدِ نکاح کا حُکم ہے۔
چُنانچِہ ميرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اَہْلِ سنّت، مُجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن نقل کرتے ہیں:علامہ حسن بن عَمّار شُرُنبُلا لی(علیہ رحمۃُ اللہِ الوالی)شَرحِ وَھبانِیہ میں پھرعلامہ عَلائی (علیہ رحمۃُ اللہِ الباقی)شَرحِ تَنویر میں فرماتے ہیں:
جومُتَّفِقہ کفر ہو وہ اَعمالِ صالِحَہ اور نکاح کو باطِل کر دیتا ہے اور اسکی اولاد اولادِ زِنا ہوگی۔ اور جس(قول یا فِعل کے کفر ہونے) میں خِلاف (یعنی اِختِلاف)ہو تو اسے اِستِغفار ، توبہ ا و ر تجدیدِ (ایمان و) ِکاح کا حکْم دیا جائے گا ۔
(فتاوٰی رضویہ ج 15 ص446)
===================
کیاقَطْعی کُفر میں بھی اِختِلاف ہو سکتا ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سُوال:
اگر کُفْرقَطْعی ہو (مَثَلاً قادِیانی کا کُفْر)اور کوئی مفتی اس میں اختِلاف کرے تو کیا حکْم ہے؟
-----------------------------------
جواب:
وہ مفتی ہی نہیں جوقَطْعی کُفْر میں اختِلاف کرے
بلکہ عوام کے ساتھ ساتھ ایسے مفتی کا حکم بھی فُقَہا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلام کے نزدیک یہ ہے: مَنْ شکَّ فِیْ عَذَابِہٖ وَ کُفْرِہٖ فَقَدْ کَفَرَ۔ یعنی جو اُس(قَطْعی کفر بکنے والے کافِر)کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ خود کافِر ہے۔ (دُرِّمُختار ج6 ص356

=====================
سید سالار مسعود غازی گروپ
=====================

No comments:

Post a Comment