★ جو قوم اپنے علماء کا خون چوسے وه کیسے رحمت خداوندی کی مستحق ہوسکتی ہے ★
ایک مسجد میں جانا ہوا ماشاءاللہ ہرطرف تعمیری کام چل رہاتها
کہیں سنگ مرمر بچھایا جارہا تها
کہیں ٹائلیں لگائ جارہی تهیں
کہیں بجلی فٹنگ ،کہیں ریپیرنگ وغیره وغیره!
معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ تقریبا 20 لاکھ روپے لگ چکے ہیں اور اندازه کے مطابق اتنے ہی اور لگ جائیں گے
تعجب اس کام پر نہیں ہو رہا تها
بلکہ تعجب کی اصل وجہ یہ تهی
کہ مسجد بنی بنائی پہلے ہی سے موجود تهی ، بس نمازیوں کی سہولت اور اس سے بهی زیاده
خوش نمائی کےجزبہ سے یہ کام کیا جا رہا تها،
« اگلے ہی لمحہ
امام مسجد سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے ان کی تنخواه معلوم کی
اس امید پر کہ ایسی جگہ 20 ہزار سےکم تنخواه کیا ہوگی ،جس مسجد میں 50 لاکھ روپیہ خوشنمائی کےلئے لگایا جاسکتا ہو، تو
وہاں اتنی تنخواه کوئی مشکل نہیں
لیکن
میری حیرت کی انتہا نہ رہی اس وقت جب امام صاحب نے جواب میں 5000 پانچ ہزار تنخواه بتلائی
اور ستم بالائے ستم
وه بهی وقت پر نہیں ملتی
میں اس سوچ میں پڑگیا
کہ
سن 2016 میں اتنے کا تو متولی کےگهر کا دودھ ہی آجاتاہوگا
اور
ایک امام کی ضروریات
گهی
تیل
آٹا
سبزی
گوشت
بجلی بل
پانی بل
بچوں کی اسکول فیس
گیس سلینڈر
چائے ناشتہ
دوا وغیره
مہمان وغیره
سفر وغیره کے اخراجات
نئے کپڑے
سردی گرمی کی ضروریات
وغیره وغیره
ان سب کا موں کےلئے پانچ ہزار
اناللہ وانا الیہ راجعون
انتہائی افسوس کے ساتھ سارے جزبات کو دل میں محسوس کر کے واپس ہوا.!
پهر اپنے ایک اہم مشفق باخدا عالم دین مفتی صاحب کے سامنے اس کا تذکره کیا
سنکر ان کی آنکهوں میں آنسو آگئے
اور
فرمانے لگے
کہ
" آج مسلمانوں پر جوحالات آرہے ہیں یہ علماء کے خون چوسنے کی ہی وجہ سے آرہےہیں "
حضور علیہ السلام نے حجر اسود کوخطاب کرکے ارشاد فرمایاتها
کہ تجھ سے زیاده عزت والا ایک مسلمان ہے ،تو جب ایک مسلمان حجر اسود سے افضل ہے تو عالم دین یقینا بدرجہا افضل ہے
لہذا مسجد سے افضل مسجد کا امام ہے
اب اگر ممبران مسجد کمیٹی اور متولی حضرات ، ائمہ مساجد کو کمتر اور مسجدوں کو ان سے افضل سمجھ رہے ہیں تو ان کو جاہل اجہل ناہنجار نابکار بےوقوف بےدین متکبر نالائق کہدیاجائے تو کوئی غلط بات نہیں.!
( یهدیهم اللہ ویصلح بالهم )
میرا بارہا کا تجربہ ہے
کہ
جب بهی مسجد کمیٹی کے پاس کچھ بیلنس بڑه جاتاہے، تو ان کی سوچ و فکر......
بس یہی ہوتی ہے کہ کس طرح اس پیسے کو پیشاب خانہ، بیت الخلاء
اینٹ گارا مٹی میں کس طرح لگا دیاجائے، چاہے ان کو کوئی چیز بنی بنائی توڑ کر ہی کیوں نہ بنانی پڑے
مگر ان کے ذہن میں یہ نہیں آتا
کہ ، امام یا موذن یا مدرس کی تنخواهوں میں اضافہ کر دیاجائے
یا ان کی کسی ضرورت پر خرچ کردیاجائے یا مکتب میں اساتذه کا اضافہ کردیائے
حرف غلط کی طرح بهی دماغ میں ایسی باتیں نہیں آتیں
ہندوستان کی مساجد کے ہزاروں ائمہ کرایہ کے مکانوں میں یا مسجد کے ایک حجره میں رہ کر زندگی گذارکر دنیاسے رخصت ہوگئے
مگر ان فرعون صفت ممبران مساجدکو ذرا بهی رحم نہیں آیا
اور خوف خدا سے عاری ہوکر
امت کے لاکهوں کڑوڑوں روپے غیرضروری تعمیر میں لگادیئے
ایسے بدقماش ممبران مساجد کو دهیان رکهنا چاہیئے کہ حساب و کتاب کا دن اور اعمال تولنے والی ترازو ان کے لئے بهی ہے..
اگر تحریر اچھی لگے تو ضرور شیئر کریں تاکہ کسی کو تو اس کی ھدایت ملے..آمین
«―~―~―~―~»
طالب دعا
عبدالامین برکاتی قادری
+919033263692
No comments:
Post a Comment