ملفوظ
یا جنید یا جنید کہنے پر اعتراض کا جواب
مفصل جواب
ایک وہابی کو جواب
مزید جواب
کچھ اور مزید
وہابیوں کو یا جنید یا جنید کہنا خلاف توحید
نظرآتا ہے جبکہ حدیث موجود ہے کہ جب جنگل میں کسی کا جانور چھوٹ جائے تو
یوں ندا کرے ْیا عباد اللہ احبسوا،یا عباد اللہ احبسوا۔۔۔اے اللہ کے بندوں
!اسے روک دو ۔اے اللہ کے بندوں اسے روک دو ۔کما قال علیہ الصلوۃ
والسلام۔(عمل الیوم واللیلۃ،مسند ابی یعلی الموصلیی،تحفۃ الذاکرین)۔
ایک روایت میں یہ ہے کہ مدد کی ضرورت ہو اور ایسی جگہ ہو جہاں مدد کرنے والا نہ ہو تو اسے چاہے کہ یوں کہے یا عباد اللہ اعینونی۔اے اللہ کے بندوں میری مدد کرو۔(مجمع الزوائد)۔
پہلی روایت کے تحت وہابیوں کے متفقہ امام نووی نے اپنا واقعہ لکھا کہ
ایک مرتبہ میں (امام نووی)خود ایک جماعت کے ساتھ تھا تو میرا ایک جانور بھاگ نکلا تو یہی کلمات کہے۔فوقفت فی الحال بغیر سبب سویٰ ھذا الکلام ۔تو وہ جانور فوری طور پر کھڑا ہو گیا صرف اس کلام کے ساتھ کسی دوسرے سبب کے بغیر(کتاب الاذکار النویہ 191)۔
امام نووی کا یہی واقعہ نواب صدیق حسن خان نے اپنی کتاب نزل الابرار 345پر لکھا۔
اور نواب صدیق حسن خان اہلحدیث غیر مقلد نے بھی اپنا واقعہ لکھا کہ مین نے بھی ایک موقع پر گھوڑا گم ہو جانے کے بعد ایسا ہی کیا تو میری حاجت پوری ہو گی یعنی گھوڑا مل گیا(نزل الابرار 345)۔
الامام الفقۃ المحدث عبد اللہ محمد ابن مفلح المقدسی (المتوفی 763ھ)نے اپنی کتاب الاداب الشرعیۃ میں یہی روایت لکھی اور پھر لکھا کہ حضرت اما م احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد(یعنی امام احمد بن حنبل) سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے پانچ بار حج کئے ہیں ایک بار میں پیدل جا رہا تھا اور راستہ بھول گیا ،میں نے کہا اے عباد اللہ مجھے راستہ دکھاو میں یونہی کہتا رہا حتیٰ کہ میں صحیح رواستے پر آ گیا(الاداب الشرعیۃ 457امام ابن ملفح )۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا یہی واقعہ تمام وہابیوں کے امام بانی وہابی مذہب محمد بن عبد الوہاب نجدی کے بھائی شیخ سلیمان بن عبد الوہاب نے اپنی کتاب الصواعق الالٰہیہ ص 34،35 پر لکھا۔
اہل علم جانتے ہیں کہ یا عباد اللہ وہی معنی بیان کر رہا ہے جو یا جنید کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ اور پھر کیا یا عباد اللہ، غیر اللہ نہیں اور یا جنید غیر اللہ ہے؟فرق صرف اینا ہے کہ وہاں وہ شخص نام سے یعنی یاجنید کہہ کر مدد مانگ رہا تھا اور یہاں عباد اللہ کہہ کر مدد مانگی جا رہے ہے۔لیکن معاملہ دونوں کا یکساں ہے کہ دونوں اللہ عزوجل کے بندوں سے مدد مانگ رہے ہیں اور یہ تعلیم خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دی جیسا کہ ہم اوپر دونوں روایات درج کر چکے۔
دوسرا اگر اصول وہابیہ کے تحت دیکھا جاے تو امام نووی،نواب صدیق حسن خان ،اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا یہ واقعہ یا جنید والے واقعے سے بدرجہ اعلیٰ کفرہیہ و شرکیہ ہے کیونکہ یا جنید والے واقعہ میں حضرت جنید نظر وں کے سامنے موجود تھے جبکہ یہاں جن عباد اللہ کو مدد کے لئے پکارا جا رہا ہے وہ نظروں سے اوجھل ہیں۔نا معلوم کتنی مسافت پر موجود ہوں اس کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔۔لہذا وہابیوں دیوبندیوں کے مذہب کے مطابق امام نووی،نواب صدیق اور امام احمد بن حنبل بھی اپنی مشکل میں غیر اللہ کو مشکل کشائی کے لئے ندا کر کے کافر و مشرک ہوے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاحول ولاقوۃ الاباللہ۔
لیکن آج دن تک کسی وہابی دیوبندی نجدی کو کبھی ان لوگوں پر کفر و شرک کا فتویٰ لگانے کی توفیق نہیں ہوئی ۔۔۔۔
مزید تفصیل ان شاء اللہ کبھی مکمل مضمون کی صورت میں پیش کروں گا ۔
ایک روایت میں یہ ہے کہ مدد کی ضرورت ہو اور ایسی جگہ ہو جہاں مدد کرنے والا نہ ہو تو اسے چاہے کہ یوں کہے یا عباد اللہ اعینونی۔اے اللہ کے بندوں میری مدد کرو۔(مجمع الزوائد)۔
پہلی روایت کے تحت وہابیوں کے متفقہ امام نووی نے اپنا واقعہ لکھا کہ
ایک مرتبہ میں (امام نووی)خود ایک جماعت کے ساتھ تھا تو میرا ایک جانور بھاگ نکلا تو یہی کلمات کہے۔فوقفت فی الحال بغیر سبب سویٰ ھذا الکلام ۔تو وہ جانور فوری طور پر کھڑا ہو گیا صرف اس کلام کے ساتھ کسی دوسرے سبب کے بغیر(کتاب الاذکار النویہ 191)۔
امام نووی کا یہی واقعہ نواب صدیق حسن خان نے اپنی کتاب نزل الابرار 345پر لکھا۔
اور نواب صدیق حسن خان اہلحدیث غیر مقلد نے بھی اپنا واقعہ لکھا کہ مین نے بھی ایک موقع پر گھوڑا گم ہو جانے کے بعد ایسا ہی کیا تو میری حاجت پوری ہو گی یعنی گھوڑا مل گیا(نزل الابرار 345)۔
الامام الفقۃ المحدث عبد اللہ محمد ابن مفلح المقدسی (المتوفی 763ھ)نے اپنی کتاب الاداب الشرعیۃ میں یہی روایت لکھی اور پھر لکھا کہ حضرت اما م احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد(یعنی امام احمد بن حنبل) سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے پانچ بار حج کئے ہیں ایک بار میں پیدل جا رہا تھا اور راستہ بھول گیا ،میں نے کہا اے عباد اللہ مجھے راستہ دکھاو میں یونہی کہتا رہا حتیٰ کہ میں صحیح رواستے پر آ گیا(الاداب الشرعیۃ 457امام ابن ملفح )۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا یہی واقعہ تمام وہابیوں کے امام بانی وہابی مذہب محمد بن عبد الوہاب نجدی کے بھائی شیخ سلیمان بن عبد الوہاب نے اپنی کتاب الصواعق الالٰہیہ ص 34،35 پر لکھا۔
اہل علم جانتے ہیں کہ یا عباد اللہ وہی معنی بیان کر رہا ہے جو یا جنید کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ اور پھر کیا یا عباد اللہ، غیر اللہ نہیں اور یا جنید غیر اللہ ہے؟فرق صرف اینا ہے کہ وہاں وہ شخص نام سے یعنی یاجنید کہہ کر مدد مانگ رہا تھا اور یہاں عباد اللہ کہہ کر مدد مانگی جا رہے ہے۔لیکن معاملہ دونوں کا یکساں ہے کہ دونوں اللہ عزوجل کے بندوں سے مدد مانگ رہے ہیں اور یہ تعلیم خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دی جیسا کہ ہم اوپر دونوں روایات درج کر چکے۔
دوسرا اگر اصول وہابیہ کے تحت دیکھا جاے تو امام نووی،نواب صدیق حسن خان ،اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا یہ واقعہ یا جنید والے واقعے سے بدرجہ اعلیٰ کفرہیہ و شرکیہ ہے کیونکہ یا جنید والے واقعہ میں حضرت جنید نظر وں کے سامنے موجود تھے جبکہ یہاں جن عباد اللہ کو مدد کے لئے پکارا جا رہا ہے وہ نظروں سے اوجھل ہیں۔نا معلوم کتنی مسافت پر موجود ہوں اس کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔۔لہذا وہابیوں دیوبندیوں کے مذہب کے مطابق امام نووی،نواب صدیق اور امام احمد بن حنبل بھی اپنی مشکل میں غیر اللہ کو مشکل کشائی کے لئے ندا کر کے کافر و مشرک ہوے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاحول ولاقوۃ الاباللہ۔
لیکن آج دن تک کسی وہابی دیوبندی نجدی کو کبھی ان لوگوں پر کفر و شرک کا فتویٰ لگانے کی توفیق نہیں ہوئی ۔۔۔۔
مزید تفصیل ان شاء اللہ کبھی مکمل مضمون کی صورت میں پیش کروں گا ۔
No comments:
Post a Comment