یہ چند صفحے پوسٹ کر رہا ہوں ورنہ اکثر کتاب کا یہی حال ہے
ہمارے ہر معمول پر تو قرون ثلثہ سے ثبوت کی مانگ کی رٹ لگی رہتی ہے ، پر اب ان نجدیوں کا حال دیکھیں
کیا یہ کوئی ثبوت پیش کر سکتے ہیں اپنے اصول کے مطابق انکی صحت پر!
اب کہاں گئی انکی رٹ کہ ہر بدعت گمراہی ہے!
نجدی مفتی نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو جائز کہہ رہا ہے
مگر
یہ کیا؟؟؟
رسول اللہ ﷺ نے تو کبھی اس آلہ مکبر الصوت کا استعمال نہیں فرمایا!۔
خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے بھی کبھی اسکا اتعمال نہیں فرمایا!۔
نہ تابعین کرام علیھم الرحمہ نے ایسا کیا!۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ ایسی چیز کو جائز مان رہے ہیں جس کا ثبوت نہ
قرآن و سنت میں ہے اور نہ قرون ثلثہ میں ہی مگر دعویدار اس اصول کے ہیں
کہ صرف اور صرف وہی کام جائز ہے جسکا ثبوت قرونِ ثلٰثہ میں صراحتََا ہو
لہذا نجدی
وہابی نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کر کے اپنے ہی اُصول کے مطابق
بدعتی ہیں اور وہ بھی بدعتِ سیئہ کے مرتکب کیونکہ ان کے نزدیک بدعت حسنہ کا
سرے سے وجود ہی نہیں ہے
نجدیوں
کے جہاد کی حقیقت تو ہم سب جانتے ہیں ، اسکے ساتھ ساتھ نجدیوں نے اپنا اُلو
سیدھا کرنے کے لیے قرونِ ثلٰثہ کی قید بھی بھلا دی!۔
ایک طرف تو یہ نجدیوں کی بدعات کا ثبوت ہے اور ساتھ ہی یہ تین باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں :۔
پہلی
یہ کہ نجدی اپنے مسلک کی کتابیں لکھنے کو دین کا کام سمجھ کر ہی کرتے ہیں
(کیونکہ مصنف نے اپنے دوست علیم ناصری کو شاہ نامہ بالاکوٹ لکھنے پر اللہ
پاک سے اجر ملنے کی دُعا دی ہے جبکہ شاہ نامہ بالاکوٹ لکھنا چھاپنا قطعا
بدعت ہے ، تو معلوم ہوا کہ نجدی مرتکبِ بدعات بھی ہیں اور وہ بدعتوں کو
ثواب کا کام سمجھ کر ہی انجام دیتے ہیں اور اپنی بدعتوں پر جزائے خیر کی
اُمید بھی رکھتے ہیں اور دوسروں کو دعائیں بھی دیتے ہیں کہ بہت اچھی بدعت سرانجام دی!)۔
دوسری
یہ کہ نجدی بشر کی تعریف میں زبان سنبھال کر بات بھی نہیں کرتے اور نہ ہی
بشر کی تعریف میں اختصار سے کام لیتے ہیں جو نجدیوں کا تقویۃ الایمانی
نظریے سے خروج کا بیّن ثبوت ہے!۔
تیسری
یہ کہ اہلسنت پر نجدیوں کے اعتراض محض عداوت کی بنا پر ہیں کیونکہ اگر
نجدیوں برحق ہوتے تو جن باتوں سے سُنیوں کو روکتے ہیں خود بھی اُنکا ارتکاب
نہ کرتے ، مگر معاملہ بالکل برعکس ہے!۔
No comments:
Post a Comment