Total Pageviews

Abdulamin BarkaTi Qadri

Friday, May 20, 2016

علماء اور امام کا حال

ذرا غور فرمائیں!!!

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ درس نظامی کے طلبا ہنر مندی سے عاری ہوتے ہیں۔ انہیں ٹیکنیکل کام سکھائے جائیں تاکہ معاشی طور پر خود کفیل ہو کر اسلام کی خدمت فی سبیل اللہ سر انجام دے سکیں۔۔۔!

اسے اعتراض کہیں یا تجویز۔ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اگر غورکرے تو یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیگا کہ دینی مدارس کے فضلاء اور مولوی حضرات کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں ہے !

وکیلوں اور ججوں سے کیوں نہیں کہا جاتاکہ وہ ٹیکنیکل کام سیکھ کر اپنی گزر بسر کریں اور قوم کی قانونی رہنمائی فی سبیل اللہ مفت سر انجام دیں !

ڈاکٹر وں اور انجینئروں سے کیوں نہیں کہا جاتا کہ وہ دستکاری اور ہنر سیکھ کر اپنے اخراجات پورے کریں اور طبی مشورے اور تعمیراتی رہنمائی، خدمت خلق کے جذبہ کے تحت بلا معاوضہ مفت سر انجام دیں !

اسمبلی ممبران اور انتظامی امور چلانے والے افسران سے کیوں نہیں کہا جاتاکہ وہ قانون سازی اور انتظامی معاملات کو قومی جذبہ سے سرشار ہو کر انجام دیا کریں اور اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات کیلئے کوئی ہنر سیکھ کر ’’الکاسب حبیب اللہ(کمانے والا اللہ کا محبوب ہے) ‘‘ پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کیا کریں۔۔۔!

اگر وکیل عدالت میں پیش ہونیکا سلیقہ سکھاتا ہے اور قانونی رہنمائی فراہم کرکے حق الخدمت (پیسہ) وصول کرتاہے تو ایک عالم دین، احکم الحاکمین کے دربار میں پنج وقتہ پیشی میں معاونت کرتاہے اور مذہبی رہنمائی فراہم کرتاہے ۔۔۔!

اگر جج لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کرکے تنخواہ کا مستحق ہوتاہے تو ایک عالم دین مسلمانوں کے معاملات اور مسائل کو کتاب وسنت کی روشنی میں سلجھا کر معاشرہ کی بہت بڑی ضرورت پوری کرتاہے۔

اگر ڈاکٹر جسمانی علاج کرتاہے تو ایک عالم دین جسمانی تقاضوں کو شریعت کے مطابق پورا کرنیکا طریقہ بتاتا ہے اور روحانی علاج میں رہنمائی فراہم کرتاہے۔

اگر انجینئر آپ کو سر چھپا نے کی جگہ بنانے میں مشوروں سے نوازتاہے اور مشینری کے ستعمال کے طریقے بتاتا ہے تو ایک عالم دین قبر کی تعمیر وکشادگی، عرش کا سایہ اور جنت کے عظیم الشان محلات کی تعمیر میں آپ کو مشورے دیتاہے اور آپ کے جسم کی مشینری کے جائز استعمال کے طریقے سکھاتاہے ۔

آپ ذرا کسی ایسے مفتی صاحب کا تصور کریں جو ٹیکنیکل کام سیکھ کر روزی کمانے کی فکر میں ہو۔
آپ کوئی اہم مسئلہ پوچھنے دارالافتاء پہنچے تو معلوم ہوا کہ مفتی صاحب کسی کی واشنگ مشین یا ریفریجریٹر ٹھیک کرنے گئے ہوئے ہیں یا ادھاری وصول کرنے گئے ہوئے ہیں۔

آپ کو فوری ضرورت کا مسئلہ درپیش ہے مگر مولانا صاحب اپنے اور بچوں کے معاش کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں اب آپ کیا کریں گے؟ ۔
اگر مولوی صاحب کی دکان شہر کے ایک حصہ میں ہے اور امامت شہر کے کسی دوردراز علاقے میں کرتے ہیں تو ذرا انصاف سے بتلائیے کہ اوپر تلے عصر، مغرب اور عشا کی امامت کیلئے کیا صورت اختیار کی جائے گی؟
کیا مولوی صاحب دکان سنبھالیں یا منصب امامت؟
عوام کا تو یہ حال ہے کہ خود بھلے چوتھی رکعت میں پہنچیں مولوی صاحب کسی مجبوری کے سبب اگر چار منٹ بھی لیٹ ہوجائیں تو انہیں خونخوار نظروں سے گھورا جاتا ہے.
ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ دینی مدارس کے فضلاء سے ہم کو کس شعبہ زندگی میں کام لینا ہے؟
ہر فن کے ماہر اور ہر میدان کے شہسوار ہوتے ہیں اور ان کا دائرہ کار ان کا فن ان کے میدان تک محدود ہوتاہے کسی سرجن سے ہم نے کبھی مطالبہ نہیں کیا کہ اسے تعمیراتی نقشوں میں مہارت ہونی چاہئے اور بجری اور سیمنٹ کا تناسب معلوم ہونا چاہئے اور نہ ہی کسی انجینئر کیلئے ہم مشورہ دیتے ہیں کہ اسے آنکھ کے پردے یا دل کی جھلی اور پھیپھڑوں کے فنکشن کے متعلق معلومات نہ ہوں تو اسے ملازمت نہیں ملے گی لیکن دینی مدارس کے علماء سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں جدید ٹیکنالوجی میں مہارت ہونی چاہئے اور اپنا پیٹ پالنے کیلئے کوئی ہنر سیکھنا چاہئے

ہائے رے افسوس.

منقول
👆👆🌷🌷👆👆

No comments:

Post a Comment