🌹علماء کرام کا منفی عمومی رویہ🌹
اس وقت اہلِ سنت و جماعت کے درمیان سخت انتشار ہے، علماء کرام اتحادکی فضا ہموار کر سکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے ان کا ایک طبقہ خود اختلافات کو ہوا دے رہا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف زبان و قلم کابے جا استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ آج اہلِ سنت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی سخت ترین ضرورت ہے۔
عالمی سطح پر اسلام کے خلاف منظم اور مسلسل سازشیں ہو رہی ہیں۔ اہل سنت کے خلاف پیہم شر انگیزی کا ایک سلسلہ شروع ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے عہد میں امت مسلمہ کی جو حالت تھی،آج بھی اس سے بہتر نظر نہیں آتی جس کا انہیں شدید احساس تھا۔ آپ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ خالص اہل سنت کی ایک قوت اجتماعی کی بہت ضرورت ہے، مگر اس کے لیے تین چیزوں کی سخت حاجت ہے۔
(1) علما کا اتفاق
(2) تحمل شاق قدربالطاق۔
(3) امرا کا انفاق لوجہ الخلاق۔
یہاں یہ سب مفقود ہیں۔‘‘
(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 132)
علماء کرام کے عدم اتفاق کی بنیادی وجہ امام احمد رضاحسد قرار دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی علماء کے اختلاف و انتشار کی بنیادی وجہ حسد ہی ہے۔۔۔ فلاں شخص عوام وخواص میں مقبول ہے، ہم کیوں نہیں ۔۔۔ فلاں تحریک و ادارہ عوام و خواص کا مرکزِ توجہ ہے، ہمارا کیوں نہیں۔۔۔ ظاہر سی بات ہے ان چیزوں کا برسرِ عام اظہار تو کیا نہیں جائے گا لیکن جب سینے کی آگ سے دل کے پھپھولے جلتے ہیں تو نفرتوں کی لپٹیں اٹھتی ہی ہیں اور پھر شروع ہو جاتا ہے ایک دوسرے کی شخصیتوں، تحریکوں اور اداروں پر طرح طرح کے الزامات عائد کرنے کا بدترین سلسلہ۔
امام احمد رضا قدس سرہ علماء کے انتشار کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اتفاقِ علما کا یہ حال کہ حسد کا بازار گرم، ایک کا نام جھوٹوں بھی مشہور ہوا تو بہتیرے سچے اس کے مخالف ہو گئے۔ اس کی توہین تشنیع میں گمراہوں کے ہم زبان بنے کہ’’ہیں‘‘ لوگ اسے پوچھتے ہیں اور ہمیں نہیں پوچھتے؟ اب فرمائیں کہ وہ قوم کہ جو اپنے میں کسی ذی فضل کو نہ دیکھ سکے، اپنے ناقصوں کو کامل، قاصروں کو ذی فضل بنانے کی کیا کوشش کرے گی؟ حاشا یہ کلیہ نہیں مگر للاکثر حکم الکل
(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 133)
امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے اس خصوصی تبصرےمیں ہم اپنے عہد کے علما کا اختلافی چہرہ بخوبی پہچان سکتے ہیں۔
⚜⚜⚜⚜⚜⚜⚜⚜⚜
فتویٰ لگانے میں احتیاط کی ضرورت
⚜⚜⚜⚜⚜⚜⚜⚜⚜
اس مقام پر ایک خاص بات یہ ہے کہ جب علماے کرام سے کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ فلاں تحریک و ادارے یا فلاں شخص کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ تو بلا دلیل کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ تو خارج از اسلام ہے۔ فلاں تحریک تو بدعقیدہ تحریک ہے، یا فلاں شخص تو صلح کلی کا حامی ہے۔ ہم بڑے ادب سے عرض کرتے ہیں کہ جو ضروریاتِ دین میں سے کسی شے کا منکر ہو باجماع مسلمین یقیناً قطعاً کافر ہے۔ اگرچہ کروڑ بار کلمہ پڑھے مگر اس کی وضاحت تو کر دی جائے کہ فلاں شخص نے ضروریاتِ دین میں سے فلاں چیز کا انکار کیا ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تو علماء کرام کو بہ اتفاقِ رائے فیصلہ صادر کرنا چاہیے تاکہ جماعتی انتشار ختم ہو اور معاملہ یک طرفہ ہو اور اگر معاملہ ایسا نہیں ہے تو کسی صحیح العقیدہ عالم کو یا کسی دینی تحریک اور ادارے کو صلح کلی، بدعقیدہ یا خارج از اسلام کہنے میں سخت احتیاط کرنی چاہیے۔ سنی سنائی باتوں پر بلا تحقیق کسی کو مجرم مان کر اس پر سخت حکم شرعی نافذ کر دینا تو ویسے بھی خلاف شریعت عمل ہے اور فتویٰ نویسی کے تقاضوں کے منافی بھی ہے اور ذمہ دار علما کو یہ غیر محتاط، غیر ذمہ دارانہ اور طفلانہ طرز عمل زیب نہیں دیتا۔
ہم اس حوالے سے بھی امام احمد رضا قدس سرہ کے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں۔ امام اہلِ سنت فرماتے ہیں :
’’فرض قطعی ہے کہ اہل کلمہ کے ہر قول وفعل کو اگرچہ بظاہر کیسا ہی شنیع وفظیع ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں اگر کوئی ضعیف سے ضعیف، نحیف سے نحیف تاویل پیدا ہو، جس کی رُو سے حکمِ اسلام نکل سکتا ہوتو اس کی طرف جائیں، اور اس کے سوا اگر ہزار احتمال جانبِ کفر جاتے ہوں تو خیال میں نہ لائیں۔
(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 317)
اعلیٰ حضرت مزید فرماتے ہیں :
’’حدیث میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کفوا من اهل لا الٰه الا الله لا تکفروهم بذنب فمن اکفر اهل لا الٰه الا الله فهو الی الکفر اقرب.
’’لا الٰہ الا اللہ کہنے والوں سے زبان روکو، انھیں کسی گناہ پر کافر نہ کہو، لاالٰہ الااللہ کہنے والوں کو جو کافر کہے وْہ خود کفر سے نزدیک تر ہے
‘‘(المعجم الکبير، ج : 12، ص : 272)
امام احمد رضا قدس سرہ اس کے بعد ایک دوسری حدیث نقل فرماتے ہیں :
’’ تین باتیں اصل ایمان میں داخل ہیں، لاالٰہ الااللہ کہنے والے سے (کفر منسوب کرنے سے) باز رہنا اور اسے گناہ کے سبب کافر نہ کہا جائے اور کسی عمل پر اسلام سے خارج نہ کہیں‘‘..
فتاوی رضویہ; ج 12 صفحہ 318...
اللہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین ثم آمین...تحریر کو آگے شیئر ضرور کرے.
💌💌💌💌💌💌💌💌💌
❣اسیر بارگاہ رضا❣
📧عبدالامین برکاتی قادریؔ
🇮🇳ویراول گجرات ہند
No comments:
Post a Comment