Total Pageviews

Abdulamin BarkaTi Qadri

Sunday, May 29, 2016

جنت دیکھانے والا گدھا

جنت دکهانے والا گدها.....

ایک شخص بازار میں صدا لگا رہا تھا........
گدھا لے لو...... پانچ سو روپے میں گدھا لے لو۔
گدھا انتہائی کمزور اور لاغر قسم کا تھا......

وہاں سے بادشاہ کا اپنے وزیر کے ساتھ گزر ہوا،
بادشاہ وزیر کے ساتھ گدھے کے پاس آیا......
اور پوچھا کتنے کا بیچ رہے ہو؟
گدهے والا:
عالی جاہ ! پچاس ہزار کا۔
بادشاہ: (حیران ہوتے ہوئے)
اتنا مہنگا گدھا؟ ایسی کیا خاصیت ہے اس میں؟
گدهے والا:
حضور جو اس پر بیٹھتا ہے اسے مکہ مدینہ دکھائی دینے لگتا ہے۔
بادشاہ کو یقین نہ آیا اور کہنے لگا......
اگر تمہاری بات سچ ہوئی تو ہم ایک لاکھ کا خرید لیں گے ،
لیکن اگر جھوٹ ہوئی تو تمہارا سر قلم کر دیا جائے گا ....
ساتھ ہی وزیر کو کہا کہ اس پر بیٹھو اور بتاؤ کیا دکھتا ہے؟
وزیر بیٹھنے لگا...... تو گدھے والے نے کہا........:
جناب مکہ مدینہ کسی گنہگار انسان کو دکھائی نہیں دیتا....
وزیر:
ہم گنہگار نہیں، ہٹو سامنے سے۔ اور بیٹھ گیا.....
لیکن کچھ دکھائی نہ دیا۔
اب سوچنے لگا کہ..... اگر سچ کہہ دیا تو بہت بدنامی ہوگی،
اچانک چلایا: سبحان اللہ، ما شاء اللہ، الحمدللہ کیا نظارہ ہے مکہ، مدینہ کا۔.....
۔بادشاہ نے تجسس میں کہا ہٹو جلدی ہمیں بھی دیکھنے دو....
اور خود گدھے پر بیٹھ گیا،
دکھائی تو اسے بھی کچھ نہ دیا .....
لیکن سلطانی وبادشاہی کی شان کو مدنظر رکھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو لے آیا ...
اور کہنے لگا واہ میرے مولا واہ، واہ سبحان تیری قدرت،
کیا کراماتی گدھا ہے،........کیا مقدس جانور ہے،
میرا وزیر مجھ جتنا نیک نہیں تھا اسے صرف مکہ مدینہ دکھائی دیا........
مجھے تو ساتھ ساتھ جنت بھی دکھائی دے رہی ہے۔

اس کے اترتے ہی عوام ٹوٹ پڑی....کوئی گدھے کو چھونے کی کوشش کرنے لگا، کوئی چومنے کی ،کوئی اس کے بال کاٹ کر تبرک کے طور پر رکہنے لگا وغیرہ وغیرہ. ...........

آج یہی حال کچھ ہمارے سماج میں بس رہے کچھ جعلسازوں اور مکاروں کا ہے جنہوں نے دینی اصطلاحات اور دین کے نام پر فریب دینے کا بیڑا اٹھا رکہا ہے اور سادہ لوح عوام بھی اندھے کانے بن کر پیچھے چلے پڑتے ہیں.........

اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے......

بادشاہ اور گدھا

ایک دفعہ کا ذکر ہے ، پرانے زمانے کی بات ہے ، ایک بادشاہ تھا ایک دن بادشاہ کا دل چاہا کہ ملک کے دورے پر نکلے ، تو اس نے محکمہ موسمیات کے افسر سے پوچھا کہ آنے والے چند دنوں میں موسم کیسا رہے گا ؟
محکمہ موسمیات کے بڑے افسر نے حساب نکال کر بادشاہ کو بتایا کہ آنے والے کئی دنوں تک بارش کا کوئی امکان نہیں ہے ۔
اس لئے آپ مطمئن ہو کر ملک کی سیر کو نکل سکتے ہیں ۔
بادشاہ اپنی ملکہ کو ساتھ لے کر دورے پر نکل جاتا ہے ، دارالحکومت سے میلوں دور ایک جگہ اس کی ایک کمہار سے ملاقات ہوتی ہے جو اپنےگدھے پر مال لادھے کہیں جا رہا ہوتا ہے ،
کمہار بادشاہ کو پہچان جاتا ہے اور بادشاہ کو بتاتا ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے واپس چلے جائیں ، اس علاقے میں موسلادھار بارش ہونے جا رہی ہے ۔
بادشاہ کمہار کو کہتا ہے کہ میرے موسمیات کے افسر نے مجھے بتایا ہے کہ بارش کا کوئی امکان نہیں ہے ، میرا افسر ایک تعلیم یافتہ اور بہت ذہین بندہ ہے ، جس نے ملک کی اعلی درسگاہوں سے تعلیم حاصل کی ہے
اور میں اس کو بہت بڑی تنخواہ دیتا ہوں ۔اس لئے میں ایک کمہار کی بجائے اپنے افسر کی بات پر یقین رکھ کر سفر جاری رکھوں گا ۔
انہونی یہ ہوئی کہ ایک یا دو پہر بعد ہی بارش شروع ہو گئی اور بارش بھی طوفانی بارش کہ جس میں بادشاہ اور ملکہ کا سارا سامان بھی بھیگ گیا ۔
بادشاہ وہیں سے واپس مڑا اور راج دھانی میں پہنچتے ہی محکمہ موسمیات کے افسر کو قتل کروا دیا
اور بندے بھیج کر کمہار کو دربار میں بلایا ،۔ دربار میں بلا کر بادشاہ نے کمہار کو محکمہ موسمیات کی نوکری کی پیش کش کی ۔
بادشاہ کی پیش کش پر کمہار نے بادشاہ کو بتایا کہ میرے پاس کوئی علم عقل نہیں ہے ، میں یہ نوکری کرنے کا اہل نہیں ہوں ۔
جہان تک بات ہے بارش کی پشین گوئی کی تو .........
وہ اس طرح ہے کہ اس کا اندازہ میں گدھے کے کان دیکھ کر لگاتا ہوں. جب بھی گدھے کے کان مرجھائے ہوئے ہوتے ہیں اس کے بعد بہت بارش ہوتی ہے ۔ یہ سن کر بادشاہ نے بجائے کمہار کے گدھے کو کلرک رکھ لیا ۔
بس اس زمانے سے یہ رواج پڑا ہوا ہے کہ حکومتی محکموں میں گدھے ہی بھرتی کئے جاتے ہیں.!
ویسے آج ہمارے ہمسائے کے گدھے کے کان بھی مرجھائے ہوئے تھے۔

Friday, May 20, 2016

جو قوم اپنے علما کا خون چوسے

★ جو قوم اپنے علماء کا خون چوسے وه کیسے رحمت خداوندی کی مستحق ہوسکتی ہے ★

ایک مسجد میں جانا ہوا ماشاءاللہ ہرطرف تعمیری کام چل رہاتها
کہیں سنگ مرمر بچھایا جارہا تها
کہیں ٹائلیں لگائ جارہی تهیں
کہیں بجلی فٹنگ ،کہیں ریپیرنگ  وغیره وغیره!
معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ تقریبا 20 لاکھ روپے لگ چکے ہیں اور اندازه کے مطابق اتنے ہی اور لگ جائیں گے

تعجب اس کام پر نہیں ہو رہا تها
بلکہ تعجب کی اصل  وجہ  یہ تهی
کہ مسجد بنی بنائی پہلے ہی سے موجود تهی ، بس نمازیوں کی سہولت  اور اس سے بهی زیاده
  خوش نمائی کےجزبہ سے یہ کام کیا جا رہا تها،

« اگلے ہی لمحہ
امام مسجد سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے ان کی تنخواه معلوم کی
اس امید پر کہ ایسی جگہ 20 ہزار سےکم تنخواه کیا ہوگی ،جس مسجد میں 50 لاکھ روپیہ خوشنمائی کےلئے لگایا جاسکتا ہو، تو
وہاں اتنی تنخواه کوئی مشکل نہیں
لیکن
میری حیرت کی انتہا نہ رہی اس وقت جب امام صاحب نے جواب میں 5000 پانچ ہزار تنخواه  بتلائی

اور ستم بالائے ستم
وه بهی وقت پر نہیں ملتی

میں اس سوچ میں پڑگیا
کہ
سن 2016 میں  اتنے کا تو متولی کےگهر کا دودھ ہی آجاتاہوگا
اور
ایک امام کی ضروریات
گهی
تیل
آٹا
سبزی
گوشت
بجلی بل
پانی بل
بچوں کی اسکول فیس
گیس سلینڈر
چائے ناشتہ
دوا وغیره
مہمان وغیره
سفر وغیره کے اخراجات
نئے  کپڑے
سردی گرمی کی ضروریات
وغیره وغیره
ان سب کا موں کےلئے پانچ ہزار
اناللہ وانا الیہ راجعون

انتہائی افسوس کے ساتھ سارے جزبات کو دل میں محسوس کر کے واپس ہوا.!

پهر اپنے ایک اہم مشفق باخدا عالم دین مفتی صاحب کے سامنے اس کا تذکره کیا
سنکر ان کی آنکهوں میں آنسو آگئے
اور
فرمانے لگے
کہ

" آج مسلمانوں پر جوحالات آرہے ہیں یہ علماء کے خون چوسنے کی ہی وجہ سے آرہےہیں "

حضور علیہ السلام نے حجر اسود کوخطاب کرکے ارشاد فرمایاتها
کہ تجھ سے زیاده عزت والا ایک مسلمان ہے ،تو   جب ایک مسلمان حجر اسود سے افضل ہے تو عالم دین یقینا بدرجہا افضل ہے
لہذا مسجد سے افضل مسجد کا امام ہے

اب اگر ممبران مسجد کمیٹی اور متولی حضرات ، ائمہ مساجد کو کمتر اور مسجدوں کو ان سے افضل سمجھ رہے ہیں تو ان کو جاہل  اجہل  ناہنجار  نابکار بےوقوف  بےدین  متکبر  نالائق کہدیاجائے تو کوئی غلط بات نہیں.!

( یهدیهم اللہ ویصلح بالهم )

میرا  بارہا کا تجربہ ہے
کہ
جب بهی مسجد کمیٹی کے پاس کچھ بیلنس بڑه جاتاہے، تو ان کی سوچ و فکر......
بس یہی ہوتی ہے کہ کس طرح اس پیسے کو پیشاب خانہ، بیت الخلاء
اینٹ گارا  مٹی میں کس طرح لگا دیاجائے، چاہے ان کو کوئی چیز بنی بنائی توڑ کر ہی کیوں نہ بنانی پڑے

مگر ان کے ذہن میں یہ نہیں آتا
کہ ، امام  یا  موذن  یا مدرس کی تنخواهوں میں اضافہ کر دیاجائے
یا ان کی کسی ضرورت پر خرچ کردیاجائے یا مکتب میں اساتذه کا اضافہ کردیائے

حرف غلط کی طرح بهی دماغ میں ایسی باتیں نہیں آتیں

ہندوستان کی مساجد کے ہزاروں ائمہ کرایہ کے مکانوں میں یا مسجد کے ایک حجره میں رہ کر زندگی گذارکر دنیاسے رخصت ہوگئے
مگر ان فرعون صفت ممبران مساجدکو ذرا بهی رحم نہیں آیا

اور خوف خدا سے عاری ہوکر
امت کے لاکهوں کڑوڑوں روپے غیرضروری تعمیر میں لگادیئے

ایسے خوف خدا   سے عاری ممبران مساجد کو دهیان رکهنا چاہیئے کہ حساب و کتاب کا دن اور اعمال تولنے والی ترازو ان کے لئے بهی ہے..
اگر تحریر اچھی لگے تو ضرور شیئر کریں تاکہ کسی کو تو اس کی ھدایت ملے..آمین
»
Please think...

علماء اور امام کا حال

ذرا غور فرمائیں!!!

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ درس نظامی کے طلبا ہنر مندی سے عاری ہوتے ہیں۔ انہیں ٹیکنیکل کام سکھائے جائیں تاکہ معاشی طور پر خود کفیل ہو کر اسلام کی خدمت فی سبیل اللہ سر انجام دے سکیں۔۔۔!

اسے اعتراض کہیں یا تجویز۔ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اگر غورکرے تو یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیگا کہ دینی مدارس کے فضلاء اور مولوی حضرات کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں ہے !

وکیلوں اور ججوں سے کیوں نہیں کہا جاتاکہ وہ ٹیکنیکل کام سیکھ کر اپنی گزر بسر کریں اور قوم کی قانونی رہنمائی فی سبیل اللہ مفت سر انجام دیں !

ڈاکٹر وں اور انجینئروں سے کیوں نہیں کہا جاتا کہ وہ دستکاری اور ہنر سیکھ کر اپنے اخراجات پورے کریں اور طبی مشورے اور تعمیراتی رہنمائی، خدمت خلق کے جذبہ کے تحت بلا معاوضہ مفت سر انجام دیں !

اسمبلی ممبران اور انتظامی امور چلانے والے افسران سے کیوں نہیں کہا جاتاکہ وہ قانون سازی اور انتظامی معاملات کو قومی جذبہ سے سرشار ہو کر انجام دیا کریں اور اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات کیلئے کوئی ہنر سیکھ کر ’’الکاسب حبیب اللہ(کمانے والا اللہ کا محبوب ہے) ‘‘ پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کیا کریں۔۔۔!

اگر وکیل عدالت میں پیش ہونیکا سلیقہ سکھاتا ہے اور قانونی رہنمائی فراہم کرکے حق الخدمت (پیسہ) وصول کرتاہے تو ایک عالم دین، احکم الحاکمین کے دربار میں پنج وقتہ پیشی میں معاونت کرتاہے اور مذہبی رہنمائی فراہم کرتاہے ۔۔۔!

اگر جج لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کرکے تنخواہ کا مستحق ہوتاہے تو ایک عالم دین مسلمانوں کے معاملات اور مسائل کو کتاب وسنت کی روشنی میں سلجھا کر معاشرہ کی بہت بڑی ضرورت پوری کرتاہے۔

اگر ڈاکٹر جسمانی علاج کرتاہے تو ایک عالم دین جسمانی تقاضوں کو شریعت کے مطابق پورا کرنیکا طریقہ بتاتا ہے اور روحانی علاج میں رہنمائی فراہم کرتاہے۔

اگر انجینئر آپ کو سر چھپا نے کی جگہ بنانے میں مشوروں سے نوازتاہے اور مشینری کے ستعمال کے طریقے بتاتا ہے تو ایک عالم دین قبر کی تعمیر وکشادگی، عرش کا سایہ اور جنت کے عظیم الشان محلات کی تعمیر میں آپ کو مشورے دیتاہے اور آپ کے جسم کی مشینری کے جائز استعمال کے طریقے سکھاتاہے ۔

آپ ذرا کسی ایسے مفتی صاحب کا تصور کریں جو ٹیکنیکل کام سیکھ کر روزی کمانے کی فکر میں ہو۔
آپ کوئی اہم مسئلہ پوچھنے دارالافتاء پہنچے تو معلوم ہوا کہ مفتی صاحب کسی کی واشنگ مشین یا ریفریجریٹر ٹھیک کرنے گئے ہوئے ہیں یا ادھاری وصول کرنے گئے ہوئے ہیں۔

آپ کو فوری ضرورت کا مسئلہ درپیش ہے مگر مولانا صاحب اپنے اور بچوں کے معاش کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں اب آپ کیا کریں گے؟ ۔
اگر مولوی صاحب کی دکان شہر کے ایک حصہ میں ہے اور امامت شہر کے کسی دوردراز علاقے میں کرتے ہیں تو ذرا انصاف سے بتلائیے کہ اوپر تلے عصر، مغرب اور عشا کی امامت کیلئے کیا صورت اختیار کی جائے گی؟
کیا مولوی صاحب دکان سنبھالیں یا منصب امامت؟
عوام کا تو یہ حال ہے کہ خود بھلے چوتھی رکعت میں پہنچیں مولوی صاحب کسی مجبوری کے سبب اگر چار منٹ بھی لیٹ ہوجائیں تو انہیں خونخوار نظروں سے گھورا جاتا ہے.
ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ دینی مدارس کے فضلاء سے ہم کو کس شعبہ زندگی میں کام لینا ہے؟
ہر فن کے ماہر اور ہر میدان کے شہسوار ہوتے ہیں اور ان کا دائرہ کار ان کا فن ان کے میدان تک محدود ہوتاہے کسی سرجن سے ہم نے کبھی مطالبہ نہیں کیا کہ اسے تعمیراتی نقشوں میں مہارت ہونی چاہئے اور بجری اور سیمنٹ کا تناسب معلوم ہونا چاہئے اور نہ ہی کسی انجینئر کیلئے ہم مشورہ دیتے ہیں کہ اسے آنکھ کے پردے یا دل کی جھلی اور پھیپھڑوں کے فنکشن کے متعلق معلومات نہ ہوں تو اسے ملازمت نہیں ملے گی لیکن دینی مدارس کے علماء سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں جدید ٹیکنالوجی میں مہارت ہونی چاہئے اور اپنا پیٹ پالنے کیلئے کوئی ہنر سیکھنا چاہئے

ہائے رے افسوس.

منقول
👆👆🌷🌷👆👆

Tuesday, May 17, 2016

علماء کرام کا منفی رویہ

🌹علماء کرام کا منفی عمومی رویہ🌹

اس وقت اہلِ سنت و جماعت کے درمیان سخت انتشار ہے، علماء کرام اتحادکی فضا ہموار کر سکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے ان کا ایک طبقہ خود اختلافات کو ہوا دے رہا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف زبان و قلم کابے جا استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ آج اہلِ سنت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی سخت ترین ضرورت ہے۔

عالمی سطح پر اسلام کے خلاف منظم اور مسلسل سازشیں ہو رہی ہیں۔ اہل سنت کے خلاف پیہم شر انگیزی کا ایک سلسلہ شروع ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے عہد میں امت مسلمہ کی جو حالت تھی،آج بھی اس سے بہتر نظر نہیں آتی جس کا انہیں شدید احساس تھا۔ آپ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ خالص اہل سنت کی ایک قوت اجتماعی کی بہت ضرورت ہے، مگر اس کے لیے تین چیزوں کی سخت حاجت ہے۔

(1) علما کا اتفاق
(2) تحمل شاق قدربالطاق۔
(3) امرا کا انفاق لوجہ الخلاق۔

یہاں یہ سب مفقود ہیں۔‘‘
(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 132)

علماء کرام کے عدم اتفاق کی بنیادی وجہ امام احمد رضاحسد قرار دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی علماء کے اختلاف و انتشار کی بنیادی وجہ حسد ہی ہے۔۔۔ فلاں شخص عوام وخواص میں مقبول ہے، ہم کیوں نہیں ۔۔۔ فلاں تحریک و ادارہ عوام و خواص کا مرکزِ توجہ ہے، ہمارا کیوں نہیں۔۔۔ ظاہر سی بات ہے ان چیزوں کا برسرِ عام اظہار تو کیا نہیں جائے گا لیکن جب سینے کی آگ سے دل کے پھپھولے جلتے ہیں تو نفرتوں کی لپٹیں اٹھتی ہی ہیں اور پھر شروع ہو جاتا ہے ایک دوسرے کی شخصیتوں، تحریکوں اور اداروں پر طرح طرح کے الزامات عائد کرنے کا بدترین سلسلہ۔

امام احمد رضا قدس سرہ علماء کے انتشار کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اتفاقِ علما کا یہ حال کہ حسد کا بازار گرم، ایک کا نام جھوٹوں بھی مشہور ہوا تو بہتیرے سچے اس کے مخالف ہو گئے۔ اس کی توہین تشنیع میں گمراہوں کے ہم زبان بنے کہ’’ہیں‘‘ لوگ اسے پوچھتے ہیں اور ہمیں نہیں پوچھتے؟ اب فرمائیں کہ وہ قوم کہ جو اپنے میں کسی ذی فضل کو نہ دیکھ سکے، اپنے ناقصوں کو کامل، قاصروں کو ذی فضل بنانے کی کیا کوشش کرے گی؟ حاشا یہ کلیہ نہیں مگر للاکثر حکم الکل
(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 133)

امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے اس خصوصی تبصرےمیں ہم اپنے عہد کے علما کا اختلافی چہرہ بخوبی پہچان سکتے ہیں۔
⚜⚜⚜⚜⚜⚜⚜⚜⚜
فتویٰ لگانے میں احتیاط کی ضرورت
⚜⚜⚜⚜⚜⚜⚜⚜⚜
اس مقام پر ایک خاص بات یہ ہے کہ جب علماے کرام سے کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ فلاں تحریک و ادارے یا فلاں شخص کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ تو بلا دلیل کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ تو خارج از اسلام ہے۔ فلاں تحریک تو بدعقیدہ تحریک ہے، یا فلاں شخص تو صلح کلی کا حامی ہے۔ ہم بڑے ادب سے عرض کرتے ہیں کہ جو ضروریاتِ دین میں سے کسی شے کا منکر ہو باجماع مسلمین یقیناً قطعاً کافر ہے۔ اگرچہ کروڑ بار کلمہ پڑھے مگر اس کی وضاحت تو کر دی جائے کہ فلاں شخص نے ضروریاتِ دین میں سے فلاں چیز کا انکار کیا ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تو علماء کرام کو بہ اتفاقِ رائے فیصلہ صادر کرنا چاہیے تاکہ جماعتی انتشار ختم ہو اور معاملہ یک طرفہ ہو اور اگر معاملہ ایسا نہیں ہے تو کسی صحیح العقیدہ عالم کو یا کسی دینی تحریک اور ادارے کو صلح کلی، بدعقیدہ یا خارج از اسلام کہنے میں سخت احتیاط کرنی چاہیے۔ سنی سنائی باتوں پر بلا تحقیق کسی کو مجرم مان کر اس پر سخت حکم شرعی نافذ کر دینا تو ویسے بھی خلاف شریعت عمل ہے اور فتویٰ نویسی کے تقاضوں کے منافی بھی ہے اور ذمہ دار علما کو یہ غیر محتاط، غیر ذمہ دارانہ اور طفلانہ طرز عمل زیب نہیں دیتا۔

ہم اس حوالے سے بھی امام احمد رضا قدس سرہ کے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں۔ امام اہلِ سنت فرماتے ہیں :
’’فرض قطعی ہے کہ اہل کلمہ کے ہر قول وفعل کو اگرچہ بظاہر کیسا ہی شنیع وفظیع ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں اگر کوئی ضعیف سے ضعیف، نحیف سے نحیف تاویل پیدا ہو، جس کی رُو سے حکمِ اسلام نکل سکتا ہوتو اس کی طرف جائیں، اور اس کے سوا اگر ہزار احتمال جانبِ کفر جاتے ہوں تو خیال میں نہ لائیں۔
(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 317)

اعلیٰ حضرت مزید فرماتے ہیں :
’’حدیث میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کفوا من اهل لا الٰه الا الله لا تکفروهم بذنب فمن اکفر اهل لا الٰه الا الله فهو الی الکفر اقرب.
’’لا الٰہ الا اللہ کہنے والوں سے زبان روکو، انھیں کسی گناہ پر کافر نہ کہو، لاالٰہ الااللہ کہنے والوں کو جو کافر کہے وْہ خود کفر سے نزدیک تر ہے
‘‘(المعجم الکبير، ج : 12، ص : 272)

امام احمد رضا قدس سرہ اس کے بعد ایک دوسری حدیث نقل فرماتے ہیں :
’’ تین باتیں اصل ایمان میں داخل ہیں، لاالٰہ الااللہ کہنے والے سے (کفر منسوب کرنے سے) باز رہنا اور اسے گناہ کے سبب کافر نہ کہا جائے اور کسی عمل پر اسلام سے خارج نہ کہیں‘‘..
فتاوی رضویہ; ج 12 صفحہ 318...

اللہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین ثم آمین...تحریر کو آگے شیئر ضرور کرے.
💌💌💌💌💌💌💌💌💌
❣اسیر بارگاہ رضا❣
📧عبدالامین برکاتی قادریؔ
🇮🇳ویراول گجرات ہند

Thursday, May 12, 2016

اللہ سبحانہ تعالی کہاں ہے!

❣اللہ سبحانہ تعالی کہاں ہے❣

بسم اللہ الرحمن الرحیم
دوستو مسئلہ استواء پر بحث سے پہلے ہمیں سب سے اہم اپنا عقیدہ جاننا اور پہچاننا ضروری ہے یاد رہے کہ اہل السنت کے علماء ہمیشہ اللہ سبحانہ وتعالی کو مکان ، جسم اور جہت سے پاک اور منزہ کہتے آئے ہیں ہیں یہی عقیدہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے العقیدۃ الطحاویہ میں بھی بیان کیا ہے جو کہ بقول امام طحاوی ؒ ائمہ احناف امام اعظم ابوحنیفہ ؒ ، قاضی ابویوسف ؒ اور امام محمد بن حسن الشیبانی ؒ رضی اللہ عنھم کا عقیدہ ہے ۔۔۔
اور غیر مقلدوں کے کئی علماءجن میں ابن باز اور البانی بھی شامل ہیں ان کے ہاں یہ عقیدہ صرف ان تین بزرگوں کا نہیں بلکہ تمام اہل سنت کا عقیدہ ہے جیسا کہ ان کے عالم صالح بن فوزان عقیدہ طحاویہ کے ایک شرح میں لکھتے ہیں
التعليقات المختصرة على متن العقيدة الطحاوية )ص: 27 (والمؤلف -كما ذكر- ألف هذه العقيدة على مذهب أهل السنة عموماً، ومنهم الإمام أبو حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي، فهو أقدم الأئمة الأربعة وأدركالتابعين وروى عنهم.وكذلك صاحباه أبو يوسف، ومحمد الشيباني، وأئمة المذهب الحنفي.ذكر عقيدتهم، وأنها موافقة لمذهب أهل السنة والجماعة

عبارت کا حاصل یہی ہے کہ یہ عقیدہ اہل سنت والجماعت کے مذہب کے موافق ہے اب آج کے غیرمقلدین ہر وقت یہی سوال کرتے رہتے ہیں کہ اللہ کہاں ہے ؟تو اس سوال کے جواب میں دوستو کو یہ ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ یہ سوال ہی اس فاسد خیال اور اعتقاد سے پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کسی نہ کسی جگہ یعنی مکان میں موجود ہے ۔۔۔
اللہ تعالی کے لیے ان سوال کرنے والوں کے ذہن میں پہلے ہی مکان میں موجود اور واقع ہونا متعین ہے تب ہی تو یہی سوال کرتے ہیں اوراس کے بعد مناقشات اور مناظرات میں جو دلائل دیتے ہیں ان سب میں اللہ کی طرف جن مکانات یا چیزوں کی نسبت کی گئی ہے انسب سے یہی بات اخذ کرتے ہیں کہ اللہ یہاں موجود اور واقع ہے اور یہ آیات و نصوص اللہ تعالی کا محل وقوع اور لوکیشن متعین کرتے ہیں العیاذ باللہ جبکہ اہل سنت کے ہاں اللہ تعالی کے لیےکسی جگہ کا تعین کرنا ہی سرے سے غلط ہے تب ہم آتے ہیں اس طرف کہ اس سوال کے جواب میں ہمارا عقیدہ اور ہمارا جواب کیا اور کیسا ہونا چاہیئے تو جناب ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی لامکان ہے ۔۔۔یعنی وہ جگہ و مکان سے پاک ہے کیونکہ جگہ کے لیے محتاج ہونا صرف ایک جسم کی علامت ہے جو کہ محدود ہوتا ہے اور جہاں جہاں تک جسم کی حد ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد والا حصہ اور علاقہ اس جسم کے لیے مکان کہلاتا ہےیعنی مکان اپنے مکین پر محیط ہوتا ہے ۔۔۔
اور اللہ تعالی چونکہ حد سے پاک ہے اس کی ذات لامحدود ہے لہذا وہ نہ جسم ہوا اور نہ مکان کا محتاج نہ مکان سے متصف ۔ یعنی ہوسکتاہے کہ غیرمقلد یہی کہیں کہ اللہ تعالی مکان سے متصف ہے اگر چہ مکان کو محتاج نہیں تو اس کا جواب یہی ہے کہ بغیر احتیاج کے بھی مکان سے متصف نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اجسام کی صفت ہے ۔۔۔مکان کی تعریف میں یہی بات کہی گئی ہے کہ فراغ یشغلہ الجسم ۔۔۔کہ مکان ایک ایسے خلا کو کہتے ہیں جو کسی جسم کو گھیرے رکھا ہوا ہوتا ہےیاد رہے کہ ہماری یہ بات کہ اللہ لامکان ہے اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ لا مکان میں موجود ہے یعنی لامکان کسی جگہ کا نام ہے اور اللہ وہاں موجود ہے العیاذ باللہ اب آتے ہیں اس جملے کی طرف کہ اللہ ہرجگہ موجود ہے

تو تمام دوست یاد رکھیں کہ اس جملے سے ہماری مراد یہی ہے کہ اللہ کی قدرت اور اسکا علم ہرجگہ ہے رہی یہ بات کہ اللہ کی ذات ہرجگہ ہے یا نہیں ہے تو ہم اس کا نہ اثبات کرتے ہیں نہ نفی کرتے ہیں یہ بات انتہائی ضروری ہےہم اس کا اثبات و نفی اس لیے نہیں کرتے کہ خدا کو بالذات ہر جگہ ماننے سے ذہن اللہ تعالی کا مخلوق میں حلول کرجانے کی طرف جاسکتا ہے جو کہ جہمیہ کا عقیدہ ہے جبکہ ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالی مخلوق میں حلول نہیں کرسکتا حلول کرنا کسی چیز کےاندر یا اس سے باہر ہونا اجسام کی خاصیت ہے اور اللہ عزوجل جسمیت سے پاک ہے ۔۔۔۔اور ہرجگہ ہونے کی نفی اس لیے نہیں کرتے کہ اللہ کو کسی جگہ ماننا اور کسی جگہ نہ ماننا جیسا کہ غیرمقلدوں کا عقیدہ ہے یہ بات اللہ عزوجل کےلیے حد اور لیمیٹ ثابت کرنے کی طرف لے جاتا ہے اور اللہ کو عرش پر مان کر دوسری جگہوں کی نفی کرنا اس عقیدے کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کہنے والے کہ ہاں اللہ تعالی ایک خاص جہت میں ہےجو کہ اوپر کی جہت ہے اور یہ بھی اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے ۔۔۔ لہذا ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی لامکان ہے وہ نہ داخل عالم ہے نہ خارج عالم ہے یعنی اس کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ وہ عالم کے اندر ہے ورنہ حلول لازم آئے گا اور نہ یہ بات کہی جاسکتی ہےکہ وہ خارج عالم ہے کیونکہ کسی چیز سے خارج ہونا بھی جسم اور محدود چیز کی علامت ہے اس سے اللہ کے لیے حد ثابت ہوتا ہے جو کہ اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہےاس تمام بحث کا خلاصہ میں درج ذیل خیالی گفتگو میں عرض کرونگا

غیرمقلد : اللہ کہاں ہے تمہارے کے مطابق
سنی : اللہ کے بارے میں کہاں ،وغیرہ سے سوال صحیح نہیں ہے کیونکہ کہاں کا لفظ ظاہر میں مکان کے بارے میں پوچھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اللہ لامکان ہے مکان سے پاک ہے

غ م : کہاں کے لفظ کا ترجمہ عربی میں اینکا آتا ہے ۔۔۔اللہ کے نبی ﷺ نے یہ لفظ استعمال کیا ہے ایک لونڈی سے آپ ﷺ نے پوچھا این اللہ ، یعنی اللہ کہاں ہے ۔۔۔ تب خدا کے بارے میں ایسا پوچھنا نبی ﷺ کی سنت ہے ۔۔۔ چاہے اس سے مکان لازم آئے یا کچھ بھی اس کو ہم اپنے ظاہر پر ہی لیتے ہیں
سنی : اس حدیث میں کئی قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں اس لیے یہ حدیث مضطرب ہے باقی روایات میں جن میں بعض اس روایت سے زیادہ قوی ہیں یہ لفظ ان میں موجود نہیں ہے ۔۔۔۔ لیکن اگر تم پھر بھی زیادہ اصرار کرتے ہو اور اسی لفظ کو خدا کےنبی ﷺ کا لفظ مانتے ہو تو پھر بھی یہ لفظ تمہاری بات کے لیے کوئی فائدے مند نہیں

غ م: وہ کیسے
سنی: تم اللہ کے کہاں ہونے یا کہاں نہ ہونے کے سوال کا جواب نکال رہے ہو ۔۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالی کے لوکیشن اور محل وقوع کے بارے میں بات کررہے ہو اور اس کے لیے تم یہی حدیث بطور جواب پیش کررہے ہو ۔۔۔ چلو ٹھیک ہے تم اپنے سوال کا جواب اس حدیث سے نکال لو پھر اس کو خود بھی مان لو پھر میں بات کرونگا

غ م : جی ہاں ۔ میں اللہ کے بارے میں پوچھ رہا تھا کہ اللہ کہاں ہے اور خدا کے نبی ﷺ نے بھی یہی سوال کیا
سنی : تو لونڈی نے اس کے جواب میں کیا کہا جس پر اس حدیث کے مطابق اللہ کے نبی ﷺ نے اس کو مومنہ کہا

غ م : فی السماء یعنی اللہ آسمان پر ہے
سنی : لیکن تم تو خود اس جواب کو ماننے سے انکاری ہو کیونکہ تمہارا عقیدہ تو تم اس متشابہ آیت مبارکہ سے نکالتے ہو جس کو سلف صالحین پڑھتے تھے اس پر ایمان رکھتے تھے اور اس کی تفسیر اور معنی مراد کو اللہ عزوجل کے سپرد ]تفویض[ کرتے تھے الرحمن علی العرش استوی یعنی اس کا مطلب تمہارے یہی ہے کہ اللہ عزوجل عرش پر ہے اور عرش پر ہونے کا مطلب تمہارے ہاں اللہ کا محل وقوع متعین ہونا ہے اس پر تمہاری یہ باتیں دلالت کرتی ہیں کہ تم اللہ کو باقی جگہوں سے نفی کرتےہو اور صرف عرش پر مستوی مانتے ہو تب یہ بات واضح طور پر تمہارا عقیدہ بیان کرتا ہے کہ عرش تمہارے ہاں اللہ کے لیے بطور مکان متعین ہے اور عرش آسمان سے اوپر ہے تب آسمان پر تم اللہ کو کس طرح مانتے ہو اس حدیث کا تم خود ہی انکاری ہو کیونکہ لونڈی نے تمہارے تشریح کے مطابق اللہ کہاں ہے کا جواب آسمان پر ہونے کا دیا جبکہ تمہارے ہاں رب العزت آسمان پر نہیں بلکہ آسمان سے اوپر ہے تب عجیب منافقت ہے کہ جس دلیل کو خود نہیں مانتے اسی سےہمارے خلاف استدلال پکڑتے ہو

غ م : آسمان پر ہونے کا مطلب آسمان سے اوپرعرش پر ہونا ہے
سنی : تمہارے ہاں تو تاویل حرام ہے یہاں اس حرام کی کیسی یاد آئی آپ کو ۔۔۔ لگتا ہے صرف ہمارے لیے حرام ہے۔۔۔ اگر آسمان پر ہونا عرش پر ہونا ہے تب تو سارے فرشتے بھی عرش ہیں کیونکہ ان کے بارے میں بھی قران و حدیث میں آسمان پر ہونے کی بے شمار نصوص موجود ہیں ۔۔۔

غ م : عرش چونکہ آسمانوں کے اوپر ہے اس لیے بلا تاویل آسمان پر ہونا عرش پر ہونا ہی ہے ۔۔
سنی: عرش تو صرف آسمانوں سے اوپر نہیں زمین سے بھی اوپر ہے لہذا اس تاویل سے تو اللہ عز وجل کا زمین پر بھی ہونا کہا جاسکتا ہے حالانکہ تم اس کے قائل نہیں ہو

غ م : اچھا تم بتاو تمہارے عقائد تو جہمیہ کے ہیں وہ بھی اللہ کو ہر جگہ مانتے ہیں اورتم بھی مانتے ہو
سنی :ہمارے عقائد جہمیہ کے خلاف ہیں ہم اللہ کو بطور علم و قدرت ہرجگہ مانتے ہیں جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے

غ م : یعنی ماشاء اللہ ہماری بات مان لی ۔۔ تمہارے ہاں بھی اللہ کی ذات سے زمین خالی ہے ۔۔۔ اللہ تعالی بطور ذات کے ہرجگہ نہیں ہے
سنی : یہ بات غلط ہے ۔۔۔اللہ کی ذات لامحدودہے اس کی ذات سے کسی جگہ کا خالی ماننا یعنی کسی جگہ ماننا اور کسی جگہ نہ ماننا یہ اس کی تحدید ہے ۔۔۔ ہمارے عقیدے کا مطلب آپ نے بالکل غلط لے لیا ہم اللہ کو علم اورقدرت وغیرہ کے لحاظ سے ہرجگہ ماننے کےقائل ہیں اس سے تم نے یہ نتیجہ لے لیا کہ ہم ذات کے لحاظ سے اللہ کی نفی کرتے ہیں ۔۔۔ یعنی یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ بطور ذات موجود نہیں ۔۔۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے ہم اللہ کی ذات کے متعلق کسی مکان کی نسبت کو صحیح نہیں کہتے چاہے وہ آسمان ہو یا زمین یا ہر جگہ ۔۔۔ خدا کے بارے میں ہم ایسی باتیں ہرگز صحیح نہیں جانتے کہ یہاں ہے یا یہاں نہیں ہے کیونکہ اس سب سے اللہ کے لیے مکان کی نسبت لازم آتی ہے ۔۔۔ بطور ذات ہم نہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہرجگہ ہے نہ یہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے۔۔۔کہاں اور وہاں سب مکان ہیں اور مخلوق ہیں اور اللہ عز وجل نہ داخل عالم ہے نہ خارج عالم ۔۔ یعنی اس کو نہ تو مخلوق کےاندر مان سکتے ہیں جو کہ حلول کا عقیدہ ہے اور نہ مخلوق سے باہر کہا جاسکتا ہے

غ م : یعنی تمہارے ہاں اللہ کہیں بھی نہیں ؟ یہ تو اللہ کے وجود کا انکار ہے ۔۔۔ اور اللہ مخلوق کے اندر نہیں ہے یہ تو سمجھ آتا ہے لیکن باہر کیوں نہیں اس کی کیا وجہ ؟
سنی : اللہ عزوجل کے تمام صفات توقیفی ہیں یعنی اس پر صرف ان صفات کا اطلاق جائز ہے جو کہ قطعی طور اس کے لیے قران وحدیث کے نصوص سے ثابت ہیں اب اللہ کو مخلوقس ے خارج کہنے والے کے ذہن میں اللہ تعالی کا وجود بھی اجسام کی طرح ہے جو کسی چیز میں داخل یا اس سے خارج ہوسکتی ہے ۔۔۔اس لیے یہ نظریہ غلط ہے اللہ عزوجل کے لیے کسی چیز میں جس طرح دخول ماننا باطل اور بلا دلیل ہے اسی طرح خروج ماننا بھی باطل ہے کیونکہ یہ نظریہ رکھنے والا یہی سوچ رہا ہے کہ اللہ عزوجل کے وجود اور عالم یعنی مخلوق کے وجود کے درمیان فاصلہ ہے جس سے دونوں جدا ہیں اسی کو وہ خروج کہتا ہے جو کہ دخول کے مقابل ہے اور اللہ عز وجل اور مخلوق کے درمیان فاصلہ اور مسافت ماننا قران وحدیث میں کہیں بھی وارد نہیں بلکہ اس کی قربت اور بعد سب درجے اور منزلت کے لحاظ سے ہیں۔۔ خدا کا فرمانبردار اللہ سے قریب ہے چاہے وہ سمندر کے اندر کیوں نہ ہو اور کافر اللہ سے بعید ہے چاہے وہ چاند پر کیوں نہ ہو ۔۔۔ اور اللہ کی ذات کے لیے مخلوق کی طرح مسافت کی دوری اور نزدیکی ماننا بلا دلیل ہے اور باطل ہے بلکہ یہ بعینہ اللہ کی ذات کو مخلوق کے مشابہ ماننا ہے اور مخلوق کے صفات کا اللہ پر اجرا ہے ۔۔

عقیدہ طحاویہ میں امام طحاوی ؒ فرماتے ہیں متن الطحاوية بتعليق الألباني )ص: 41
(وَمَنْ وَصَفَ اللَّهَ بِمَعْنًى مِنْ مَعَانِي الْبَشَرِ فقد كفر
اور جس نے اللہ کو بشر یعنی مخلوق کی صفات میں سے کسی صفت کے ساتھ موصوف کرلیا تو اس نے کفر کیا ۔۔۔لہذا مسافت اور فاصلے کی دوری مخلوق کی صفت ہے جو کہ اللہ تعالی کے لیے واردنہیں ہوا بلکہ اس کے بارے میں قران بھرا ہے کہ وہ ہمارے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔۔۔لہذا اس کو دوری سے متصف کرنا اس کو مخلوق پر قیاس کرنا ہے ۔۔۔اور مخلوق سے خارج کہنے والا اللہ کو مخلوق پر قیاس کرکے اس کے لیے اس کے اور مخلوق کےدرمیان مسافت اور فاصلے کی دوری ثابت کرتا ہے رہی یہ بات کہ اللہ نہ داخل عالم ہے نہ خارج عالم ۔۔اس سے تمہارے ہاں بالکل اللہ کی نفی ہوتی ہے ۔۔یا یہ کہ اس سے ہمارے ہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ  کہیں بھی نہیں ؟ تو یہ بات بھی آپ کے تجسیمی عقیدے کا پھل ہے اللہ کے ذات کے تصور کے ساتھ آپ کے ذہن میں اس کے کہیں ہونے کی بات ضرور بالضرور آتی ہے اس لیے آپ اس طرح کے تصورات کرتے ہیں ۔۔۔ہم اللہ کوموجود مانتے ہیں ۔۔اس کے ساتھ کہاں اور کہیں کی باتیں کہنا خدا کے ساتھ مکان کا تصور ہی ہے اور کچھ نہیں اور مکان میں ہونا جسم کا خاصہ ہے کیونکہ وہ محدود ہوتا ہے اور مکان اس کو گھیر ے رکھا ہوتا ہےاس لیے اللہ کی تنزیہہ یعنی پاکی بیان کرنے والے اہل سنت کے ہاں اللہ کا وجود بلاکسی تصور کے ہے نہ کسی مکان کے ساتھ نہ کسی  اور مخلوق کے ساتھ۔۔۔آپ اپنے ذہن کو تجسیمی جراثیم سے پاک کردیں انشاء اللہ آپ کو یہ بات سمجھ آجائے گی کہ اللہ کو ماننااس بات کو مستلزم نہیں کہ یہ بھی مان لیا جائے کہ کہاں ہے اور کہاں نہیں ۔۔۔یعنی اللہ کے وجود کے ساتھ مکان کا تصور لازمی نہیں ۔۔ہاں جو لوگ مشبہہ ہیں جن کے ذہن میں خدا کا تصور بھی مخلوق کی طرح ہے ان کے ذہن میں خدا کے وجود کے ساتھ اس کے مکان کا تصور بھی آنا ان کے باطل مذہب کے لوازمات میں سے ہے

غ م : جب تم اس بات کی طرف نہیں جاتے کہ اللہ بالذات ہرجگہ ہے نہ نفی کرتے ہو نہ اثبات ۔۔۔۔تب تمہارے لوگ ایسی آیتیں کیوں دلیل میں پیش کرتے ہیں جیسے وھو معکم اینما کنتم ۔۔۔ ونحن اقرب الیکم من حبل الورید ۔۔انی ذاھب الی ربی سیھدین ۔۔۔ اور اسی طرح احادیث مبارکہ بھی جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث اکثر پیش کرتے ہیں کہ عمدة القاري شرح صحيح البخاري )4/ 148
( حدّثنا قتَيْبَةُ قَالَ حدّثنا إسْماعِيلُ بنُ جَعْفَرٍ عنْ حُمَيْدٍ عنْ أنَسٍ أنَّ النبيَّ رَأى نُخَامَةً فِي القبْلَةِ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ حَتَّى رُؤِيَ فِي وَجْهِهِ فقامَ فَحكَّهُ بِيَدِهِ فَقَالَ:) إِنَّ أحَدَكُمْ إذَا قامَ فِي صَلاَتِهِ فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ أَو إنَّ رَبَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ القِبْلَةِ فَلاَ يَبْزُقَنَّ أحَدُكُمْ قِبَلَ قِبْلَتِهِ وَلَكِنْ عنْ يَسَارِهِ أوْ تَحْتَ قَدَمَيْهِ( ثُمَّ أخَذَ طَرَفَ رِدَائِهِ فَبَصَقَ فيهِ ثُمَّ رَدَّ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ فقالَ أَو يَفْعَلُ هَكَذَا.

اس حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے نماز کے دوران آگے کی طرف تھوکنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو وہ اپنے رب کے ساتھ مناجات کررہاہوتا ہے اور اس کا رب اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے تو تم میں سے کوئی شخص اپنے آگے کی طرف نہ تھوکے بلکہ اپنے بائیں یا اپنے قدم کے نیچھے تھوکےتو یہ حدیث یا اس کے ہم معنی آیات و احادیث پیش کرنے سے آپ لوگوں کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ زمین پر ہے یا ہر جگہ بالذات موجود ہے ورنہ یہ نصوص آپ لوگ استدلال میں پیش نہ کرتے

سنی : یہ آیات اور احادیث ہمارا کوئی عقیدہ بیان کرنے کے لیے نہیں ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ وھو معکم اینما کنتم ۔۔۔ سے مراد یہی ہےکہ بالذات اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔۔۔ہم اس کی طرف تعرض نہیں کرتے اگر چہ یہ آیت کا ظاہر ہے اور یہ قول کرنے والا گمراہ نہیں ہے کیونکہ وہ ظاہری آیت پر قائل ہے ۔۔۔ لیکن ہمارا مقصد ان جیسے آیات و احادیث سے آپ لوگوں کے دعوی کا رد کرنا ہے کہ جن آیات و احادیث کے ظاہر پر اپنا عقیدہ بناتے ہوئے تم لوگ اللہ کو اوپر کی جہت میں مانتے ہو انکی طرح کچھ اور آیات و احادیث بھی ہیں جن میں اللہ رب العزت کی طرف ایسے مقامات کی نسبت کی گئی ہے جو کہ زمین پر ہیں ۔۔۔ تب کیا وجہ ہے کہ اُن آیات و احادیث کو بلا تاویل مانتے ہو اور ایسے آیات و احادیث کو بلا تاویل نہیں مانتے یہ تو یہودیوں کا دین ہوگیا( افتومنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض) اگر اُن آیات و احادیث کے ظاہر سے اللہ کا اوپر کی جہت میں ہونا ظاہر ہوتا ہے تو اِن نصوص سے اللہ کا زمین پر ہونا ظاہر ہوتا ہے۔۔لہذا یا تو دونوں کو بلا تاویل مانو یا دونوں کی تاویل کرو ۔۔۔ ہم تو اللہ کو کسی جگہ ہونے یا نہ ہونے کے تصور کے بغیر مانتے ہیں اس لیے نہ ان نصوص سے اللہ کا اوپر کے جہت میں ہونے کا مطلب نکالتے ہیں نہ اِن نصوص سے اللہ کا نیچے کی جہت میں ہونے کا مطلب نکالتے ہیں بلکہ ہم یا تو اللہ کے بارے میں ایسی بات سے توقف کرتے ہیں اور اس کا علم اللہ کے سپرد کرتے ہیں جیسا کہ متقدمین کا مذہب ہے اور یا اس کی تاویل کرتے ہیں جیسا کہ متاخرین کا مذہب ہے اور دونوں صحیح ہیں لہذا اس بات سے غلط فہمی کا شکار نہ ہوں آخر میں میں فرقین کی جانب سے غلط فہمی ایک اور طریقے سے واضح کرتا ہوں جس سے رب تعالی سے امید ہے کہ ہمارے ساتھی اپنے بنیادی عقیدے اور موقف کو بخوبی سمجھ سکیں گے مثال کے طور کسی وکٹورین نے اپنے تجسیمی عقیدے پر دلیل پیش کی}

تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ )4( { ]المعارج: 4, 5[

کہ اللہ تعالی کی طرف روح القدس اور فرشتے چھڑتے ہیں چونکہ فرشتے آسمان کی طرف چھڑتے ہیں اس سے معلوم ہوا اللہ آسمان کی جہت میں ہے یعنی اوپر کی جہت میں

اب سنی نے جواب دیا کہ اگر اس آیت سے تم نے اللہ کو اوپر کی جہت میں ثابت کرنے کی کوشش کی تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ انی ذاھب الی ربی سیھدین ۔۔۔ کہ میں اپنے رب کی طرف جارہا ہوں وہ مجھے رستہ دکھائے گاتو حضرت ابراہیم علیہ السلام تو زمین پر چل رہے تھے تو آپ لوگوں کے ہاں تو اللہ عزوجل زمین پر ہونا چاہیئے اب وکٹورین جو سنی کا مطلب جان نہ سکا الٹا اس کے دلیل کا جواب دینے لگا کہ یہ تو تمہارے دعوے کو جھٹلارہا ہے کیونکہ تمہارے ]سنی کے [ ہاں تو اللہ ہرجگہ ہے اگر اللہ ہر جگہ ہوتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کی طرف پہلی جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ کی طرف کیوں جاتے تمہارے عقیدے کے مطابق تو پہلی جگہ بھی اللہ موجود تھا اور جس جگہ جارہے تھے وہاں بھی اللہ ہے پھر اس بات کا کیا مطلب کہ میں اللہ کی طرف جارہاہوں کیا جہاں پہلے تھا وہاں اللہ موجود نہیں تو وکٹورین کی یہ تقریر اس بات پر مبنی ہےکہ ہم بھی اللہ کے کسی جگہ ہونے یا نہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اسے اس آیت سے ثابت کررہے ہیں تو ہمارا جواب یہی ہے کہ اس آیت سے ہم خدا کے لوکیشن پر دلیل نہیں پکڑرہے بلکہ تعرج الملائکۃ والی آیت کی طرح اگر اس کو بھی اپنے ظاہر پر حمل کیا جائے تو جس طرح تو اللہ کا زمین پر اس جہت میں ہونا لازم آئے گا جس جہت میں ابراہیم علیہ السلام سفر فرمانے کا ارادہ کررہے تھے ۔۔۔اگر ملائکہ کا اسمان کی طرف جانے کو اللہ کی طرف جانے سے تعبیر کیا گیا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے سفر کی جگہ کو اللہ کی طرف سفر کرنے سے تعبیر کیا اب اگر پہلی آیت سے اللہ کا اوپر ہونا لازما ٓتا ہے تو دوسری سے زمین پر ہونا لازم آئے گا اب ایک آیت پر ایمان اور دوسرے سے انکار یہودیت ہی تو ہے ۔رہا ہمارا عقیدہ تو ہم تو کسی بھی نص سے اللہ کا کہیں ہونا اور کہیں نہ ہونا ثابت نہیں کرتے اور ہر جگہ اس کو بطور علم وقدرت مانتے ہیں طبور ذات کی طرف تعرض نہیں کرتے جبکہ تم بطور ذات اوپر کے علاوہ باقی جگہوں میں نفی کرتے ہو۔۔لہذا ہمارے عقیدے پر اس آیت کے مفہوم کا کوئی تضاد نہیں پڑتا
واللہ اعلم وعلمہ

دوستو  اس مضمون کو یاد کرلیں یہ میں نے بہت سے مواد اور اہل سنت کے مواقع چیک کرنے کے بعد یہ نچھوڑ نکالا ہے اس پر اگر کسی ساتھی کو کسی قسم کا بھی کوئی اشکال ہو تو بلا جھجھک پوچھ سکتا ہے میں اس کے سوال کا خیرمقدم کرونگا.......
💌💌💌💌💌💌💌💌💌
❣اسیر بارگاہ رضا❣
💌عبدالامین برکاتی قادری
🇮🇳ویراول گجرات ہند