غیر مقلدین کے تقلید سے متعلق پچاس (50) سوالات کے جوابات
اس
زمانہ میں تقلید شخصی کے بارے میں ایسا اختلاف پڑا ہے کہ جدھر دیکھئے ادھر
اسی کا جھگڑا پھیلا ہوا ہے. کوئی تو تقلید کو جائز بلکہ واجب اور فرض
بتاتا ہے اور کوئی تقلید کا سرے سے انکار ہی کرتا ہے ، نہ فرض مانتا ہے نہ
جائز جانتا ہے . ہم عامی لوگ سخت مشکل میں پڑے ہوئے ہیں کہ کس کی بات مانیں
؟ لہذا ان علماء دین کی خدمت میں جو تقلید شخصی کو فرض یا واجب یا جائز
بتاتے ہیں ، عرض کررہے ہیں کہ آپ حضرات ہم لوگوں کو سیدھا راستہ اللہ تعالی
کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتادیجئے تاکہ ہم لوگ اس پر چل کر
اپنی مراد کو پہنچ جائیں اور آپ کو سیدھا راستہ بتانے کا اجر ملے . اسی
غرض سے یہ پچاس سوالات سردست حاضر خدمت کئے جاتے ہیں، ان کے جوابات سے
سرفراز فرمایئے . اجرکم علی الله
سوال نمبر 1: سنا
ہے کہ ہماری فقہ شریف کے اصول کی کتابوں میں ہے کہ جس امتی کے قول کو
ماننے پر کوئی دلیل نہ ہو اسے بے دلیل ماننا اور مدار دین اسی پر رکھ دینا
اور قرآن ، حدیث ، اجماع اور قیاس سے دلیل نہ لے سکنا ، اسے تقلید شخصی
اصطلاحی کہتے ہیں ؟
جواب : تقلید شخصی کا انکار ملکہ وکٹوریہ کے دور میں شروع ہوا . اس سے پہلے اس کا انکار نہیں بلکہ سب لوگ تقلید شخصی کرتے تھے.
اشتہار
والے نے تقلید فرض یا واجب ماننے والوں سے دلیل مانگی ہے لیکن شرک اور
حرام کہنے والوں سے دلیل نہیں مانگی . معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب علیہ
السلام کی قوم کا آدمی ہے ، لینے کے باٹ اور ہیں اور دینے کے باٹ اور ۔
تقلید کی تعریف :
اجتہادی مسائل میں مجتہد کے ان اقوال کو جو ادلہ اربعہ میں سے کسی دلیل سے ثابت ہوں ان بادلیل باتوں کو بلامطالبہ دلیل مان لینا –
عرف عام میں تقلید کہلاتا ہے ۔
سوال نمبر 2:جس تقلید کے بارے میں اس قدر اختلافات ہیں ، اس تقلید سے کیا مراد ہے یعنی تقلید شخصی و اصطلاحی ؟
جواب : کتاب
و سنت میں غیر مجتہد اپنی ناقص رائے کو چھوڑکر کتاب و سنت کے ماہر کی
راہنمائی میں کتاب و سنت پر عمل کرے اور اگر کوئی تحریر میں اختلافات ہو تو
جس مجتہد کا مذہب اس کے ملک میں درسآ و عملآ متواتر ہو اس کی راہنمائی میں
کتاب و سنت پر عمل کرے ۔
نوٹ : رائے ناقص از خودرائی ، کم علمی ، کم فہمی ، بدفہمی ، کج فہمی ، اور خوش فہمی کو کہتے ہیں ۔
اسی کا نام غیرمقلدیت ہے ۔
سوال نمبر 3: کیا تقلید شخصی اصطلاحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنهم یا تابعین رحمہ اللہ کے زمانہ میں تھی ؟
جواب : تقلید
شخصی ہر زمانہ میں رہی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پورے یمن
میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی اور دور صحابہ رضی اللہ عنهم میں ہر شہر کے لوگ اپنے شہر کے مجتہد کی تقلید کرتے تھے ۔
سوال نمبر 4: الف : جو کام ان مبارک زمانوں میں نہ ہوا ، اگر اسے بعد والے دینی امر سمجھ کر کریں تو آیت "الیوم اکملت لکم دینکم" جو
قرآن میں ہے ، وہ بتلاتی ہے کہ اللہ کا دین ہر طرح کامل ہوگیا ، پھر ائمہ
دین کی رائے و قیاس کو بھی دین میں داخل کرنا اس آیت کے خلاف تو نہیں ؟
ب : وہ بہ اصطلاح شرعی بدعت کیوں نہیں ؟
جواب : تقلید شخصی خیرالقرون میں موجود تھی البتہ اسے شرک اور بدعت کہنا دور وکٹوریہ کی بدعت ہے
سوال نمبر 5: چاروں ائمہ یعنی امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ
تعالی علیہ اجمعین نے بھی اس تقلید کے بارے میں کچھ ارشاد فرمایا ہے یا
نہیں ؟ اور اگر فرمایا ہے تو کیا ؟ ہم نے سنا ہے کہ چاروں ائمہ تقلید کو
حرام فرمایا کرتے تھے ؟
جواب : چاروں
ائمہ نے جو اپنی فقہ مرتب کروائی ، ہر مسئلہ دلیل سے مرتب کروایا ۔ مرتب
کروانے کا مقصد اس پر عمل کرانا تھا تو گویا ہر مسئلہ دعوت تقلید ہے ۔ اس
لئے جب ان کی یہ فقہ متواتر ہے تو دعوت تقلید بھی ان سے متواتر ثابت ہے ۔ الکفایه کتاب الصوم میں صراحۃ بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے عامی کے لئے تقلید کا وجوب ثابت ہے ۔ ہاں ان ائمہ نے یہ فرمایا :: جو شخص خود اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہے اس پر اجتہاد واجب ، تقلید حرام ہے ۔ جو خطاب انہوں نے مجتہدین کو کیا تھا ان کو عوام پر چسپاں کرنا یحرفون اکلم عن مواضعه کی بدترین مثال ہے ۔ ہمارے ہاں مجتہد پر اجتہاد واحب ، غیر مجتہد پر تقلید واجب ہے اور غیر مقلد پر تعزیر واجب ہے ۔
دائرہ اجتہاد و تقلید :
تقلید کا تعلق چونکہ اجتہادی مسائل سے ہے ، اس لئے اجتہاد کا دائرہ کار کا پتہ چلنے سے تقلید کی ضرورت بھی واضح ہوتی ہے ۔
رسول
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے 9ھ میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن
روانہ فرمایا تو پوچھا : اے معاذ : فیصلہ کیسے کروگے ؟ تو انہوں نے عرض کیا
: کتاب اللہ سے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فان لم تجد فیه عرض کیا : بسنة رسول الله ۔ فرمایا فان لم تجد فیه عرض کیا : اجتهد برأیی و لا آلو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ألحمد لله الذی وفق رسول رسول الله لما یرضی به رسول الله
( ابوداؤد ، ترمذی )
اس سے معلوم ہوا کہ جو مسئلہ اور حکم کتاب و سنت میں صراحۃ نہ ملے وہاں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وضاحت یوں ہے کہ
مسائل فرعیہ کی دو قسمیں ہیں : منصوصہ ، غیر منصوصہ ۔
پھر منصوصہ کی دو قسمیں ہیں : متعارضہ ، غیر متعارضہ ۔
پھر غیر متعارضہ کی دو قسمیں ہیں : محکمہ ، محتملہ ۔
1:
مسائل منصوصہ ، غیر متعارضہ محکمہ میں نہ اجتہاد کی ضرورت نہ تقلید کی ۔ جیسے پانچ نمازوں کی فرضیت ، نصاب زکوۃ وغیرہ ۔
2:
مسائل منصوصہ متعارضہ میں رفع
تعارض کرکے مجتہد راجح نص پر عمل کرتا ہے اور مقلد بھی اس کی راہنمائی میں
راجح نص پر عمل کرتا ہے جیسے قرأت خلف الامام ، ترك رفع یدین وغیرہ ۔
3:
مسائل منصوصہ متحملہ میں
مجتہد اپنے اجتہاد سے راجح احتمال کی تلاش کرتا ہے اور اس نص کے راجح
احتمال پر عمل کرتا ہے اور مقلد اسکی راہنمائی میں اس نص کے راجح احتمال پر
عمل کرتا ہے جیسے احکام فرض ، سنت ، واجب وغیرہ ۔
4:
مسائل غیر منصوصہ میں
مجتہد منصوص مسائل میں کوئی علت تلاش کرتا ہے ۔ وہی علت جن غیر منصوص
مسائل میں پائی جاتی ہے تو وہی حکم اس میں جاری کرتا ہے اور مقلد مجتہد کی
راہنمائی میں اسی حکم پر عمل کرتا ہے جس کی بنیاد مجتہد نے کتاب و سنت کی
بنیاد پر رکھی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مجتہد اپنی اجتہادی بصیرت سے کتاب و
سنت کے منصوص اور علت سے ثابت مسائل پر عمل کرتا ہے اور مقلد بھی اس کی
راہنمائی میں کتاب و سنت ہی کے مسائل پر عمل کرتا ہے اس لئے ان اجتہادی
مسائل میں مجتہد پر اجتہاد واجب ہے۔ جو اجتہاد کی اہلیت نہ رکھے اس پر
تقلید واجب ہے ، اس لئے اسے مقلد کہتے ہیں اور جو نہ خود اجتہاد کرسکے اور
نہ مجتہد کی تقلید کرے اسے غیرمقلد کہتے ہیں ، اس پر تعزیر واجب ہے ۔
تمہید : دور
نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیکر آخر خیرالقرون تک اہل سنت والجماعت میں
مجتہدین اجتہاد کرتے تھے اور غیر مجتہدین ان کی تقلید کرتے تھے ۔ صحابہ
کرام رضی اللہ عنهم اور
تابعین و تبع تابعین کرام رحمہ اللہ میں سے ایک نام بھی پیش نہیں کیا
جاسکتا جو نہ اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو اور نہ تقلیدآ کتاب و سنت پر عمل
کرتا ہو اور اپنے کو غیرمقلد کہتا ہو ۔ ہم فی حوالہ سو روپے انعام دیں گے ۔
خیرالقرون کے بعد اجتہاد کی ضرورت نہ رہی اس لئے سب اہل سنت ائمہ اربعہ
رحمہ اللہ میں سے کسی کی تقلید کرتے تھے ۔ اس لئے چار ہی قسم کی کتابیں
ملتی ہیں : طبقات حنفیہ ، طبقات مالکیہ ، طبقات شافعیہ ، طبقات حنابلہ۔
جس
طرح ملکہ وکٹوریہ کے دور سے پہلے طبقات مرزائیہ نام کا ذکر کہیں نہیں ملتا
اس لئے کہ مرزائیوں کا وجود ہی نہیں تھا ، اسی طرح طبقات غیرمقلدین نامی
کوئی کتاب کسی محدث یا مؤرخ کی لکھی ہوئی ملکہ وکٹوریہ سے پہلے کہیں نہیں
پائی گئی کیونکہ غیرمقلدین کا فرقہ کہیں نہیں تھا ۔
نوٹ :تقلید
کی تعریف میں الدلیل کا لفظ آتا ہے ، اس سے وہ خاص دلیل مراد ہوتی ہے جو
بوقت اجتہاد مجتہد کے پیش نظر تھی اور دلیل تفصیلی اسے کہتے ہیں جو منع اور
نقص سے ثابت ہو ۔
تقلید : مجتہد
نے جو مسئلہ کتاب و سنت سے نکالا ، اس سے اس کی خاص دلیل تفصیلی کا مطالبہ
کئے بغیر اس بادلیل مسئلہ کو بلامطالبہ دلیل ماننا اور مجتہد کی راہنمائی
میں کتاب و سنت پر عمل کرنا تقلید کہلاتا ہے ۔
نوٹ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں پورے یمن میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی تقلید شخصی ہوتی تھی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم تابعین اور تبع تابعین رحهم اللہ تعالی علیہ کے دور میں سب لوگ اپنے شہر کے مجتہد مفتی کی تقلید شخصی کرتے تھے۔
چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم تابعین
اور تبع تابعین رحهم اللہ تعالی علیہ میں غیرمقلدیت کا نام و نشان تک نہ
تھا اس لئے غیرمقلدین کے بدعتی ہونے میں کوئی شک نہیں ۔
سوال نمبر 6: شامی
شریف جو مذہب حنفی کی فقہ کی معتبر کتاب ہے ۔ سنا ہے کہ اس میں یہ مذکور
ہے کہ چاروں اماموں نے اپنا مذہب قرآن و حدیث بتایا ہے ۔ پس قرآن و حدیث پر
عمل کرنا ، ان کی تابعداری کرنا چاہئے یا قرآن و حدیث پر عمل چھوڑکر ان کے
اقوال کو ماننا ، ان کی تقلید کرنا چاہیئے ؟
جواب : ائمہ
اربعہ رحمہ اللہ سے فقہ کے جو اصول متواتر ہیں ان میں مسائل ہیں دلائل
نہیں تو بلاذکر دلائل مسائل کو جمع کرانا اور اس پر متواتر عمل ہونا یہ
ائمہ اربعہ رحمہ اللہ سے جواز تقلید کا متواتر ثبوت ہے ۔ ہر کہ شک آرد کافر
گردد ۔ البتہ انہوں نے مجتہدین کو فرمایا کہ مجتہد پر اجتہاد واجب ہے ،
تقلید حرام ۔ اس حکم کو عوام پر چسپاں کرنا یحرفون الکلم عن مواضعه كی بدترین مثال ہے ۔
سوال نمبر 7:چاروں ائمہ سے پہلے بھی یہ تقلید جاری تھی یا نہیں ؟ اور تھی تو کس کی ؟
جواب : فقہ کے اصوال بالاتفاق چار ہیں : کتاب و سنت ، اجماع و قیاس ۔ مجتہد
ان چاروں دلائل سے مسائل لیتا ہے اور مقلد بھی انہی مسائل پر عمل کرتا ہے ،
جو مجتہد نے ان چاروں میں سے کسی بھی دلیل سے لئے ہوں ، جیسے کامل اجتہاد
کی بنیاد چار دلیلیں ہیں ، اسی طرح کامل مجتہد کی راہنمائی میں کتاب و سنت
پر عمل کیا جائے ۔
سوال نمبر 8:اگر
چاروں اماموں سے پہلے تقلید جاری تھی تو کس امام کی تقلید جاری تھی اور اس
وقت امام کی تقلید فرض ، واجب یا مباح تھی یا نہیں ؟ اگر تھی تو کیوں ؟
اور نہیں تو کیوں ؟ اور پھر منسوخ کیوں ہوئی ؟
جواب : چاروں اماموں سے پہلے بھی ہر قوم اپنی قوم کے فقیہ کی تقلید کرتی تھی ۔
لیفقهوا فی الدين و لینذروا قومهم اذا رجعوا الیهم لعلهم یحذرون
( سورۃ التوبہ آیت : 122 )
چاروں اماموں سے پہلے اپنے علاقے یا قوم کے مجتہد کی تقلید ہوتی تھی :
لعلمه الذین یستنبطونه منهم
( سورۃ النساء آیت : 83 )
اس
وقت واجب تھی لیکن چونکہ ان کے مذاہب مدون نہ تھے اور نہ عمل متواتر ہوا ،
اس لئے ان کی وفات کے بعد ان کا مذہب مٹ گیا ، تقلید ختم ہوگئی جیسے مسجد
کے امام کی وفات کے بعد اقتداء ختم ہوجاتی ہے ۔
سوال نمبر9 : چاروں
اماموں سے پہلے جس امام کی تقلید جاری تھی اس کا نام کیا ہے ؟ اور اب بھی
اس امام کی تقلید فرض ، واجب یا مباح ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ کب
منع ہوئی؟ کس نے منع کی ؟ اور پھر کس نے اس منصب پر ائمہ کو پہنچایا ؟
جواب : ائمہ
اربعہ رحمہ اللہ سے پہلے مکہ مکرمہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
، ان کے بعد حضرت عطاء رحمہ اللہ کی تقلید ہوتی رہی مدینہ میں اپنی اپنی
خلافت میں خلفاء راشدین رضی الله عنهم ، زید بن ثابت ، ان کے بعد فقہاء
سبعہ کی تقلید ہوتی رہی ، کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ،
انکے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ پھر حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی تقلید
ہوتی رہی ، بصرہ میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی تقلید ہوتی رہی ، ان کے
چونکہ مذاہب مدون نہ ہوسکے اس لئے ان کے جو مسائل عملا متواتر تھے ان کو
ائمہ اربعہ نے اپنی فقہ میں لے لیا ، جو ان سے شاذ اقوال مروی تھے ان کو
ترک کر دیا ، یہ ایسے ہی ہے
جیسے صحابہ رضی اللہ عنهم کے زمانہ میں بہت سے قاری تھے مگر انہوں نے اپنی قرأت کو مکمل طور پر مدون نہ فرمایا ، پھر سات قاریوں نے صحابہ رضی اللہ عنهم کی متواتر قرأت کو مدون کیا ، شاذ و متروک قرأت کو ترک کردیا ، اب ان سات متواتر قرأتوں میں تلاوت کرنے میں صحابہ رضی اللہ عنهم کی متواتر قرأت پر عمل ہورہا ہے ، البتہ ان سات قرأتوں کے علاوہ کوئی قرأت صحابہ رضی اللہ عنهم کی طرف منسوب ہو تو اس کی تلاوت جائز نہیں کیونکہ متواتر کے خلاف شاذ واجب الترک ہے ۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنهم کے
متواتر فقہی مسائل پر ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کی تقلید میں عمل ہورہا ہے ،
ان متواترات کے خلاف کوئی شاذ قول کسی صحابی رضی اللہ عنه ، مجتہد یا تابعی
کی طرف منقول ہو تو اس پر عمل جائز نہیں کیونکہ متواتر کے خلاف شاذ واجب
الترک ہے ۔
سوال نمبر 10:اجماع کی تعریف کیا ہے ؟ اور اجماع کن لوگوں کا معتبر ہے ؟ کیا تقلید شخصی پر اجماع ہوا ؟ اگر ہوا ہے تو کب ، کہاں اور کن کا ؟
جواب : ہم
عصر مجتہدین کا کسی شرعی حکم پر اتفاق کرنا اجماع کہلاتا ہے اور اس پر
متواتر عمل ہونے سے اس کا متواتر ثبوت ہوتا ہے جیسے اہل فن نےاجماع کیا کہ : کل فاعل مرفوع : سب
جگہ اہل فن فاعل پر رفع پڑھتے چلے آرہے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ بات
اہل فن کے ہاں اجماعی ہے ۔ اسی طرح خیرالقرون کے بعد ہر جگہ کسی نہ کسی
امام کی تقلید شخصی پر متواتر عمل جاری رہا ، یہی اس کے اجماع پر قوی ترین
دلیل ہے ۔
سوال نمبر 11:مجتہد
کس کو کہتے ہیں؟ کیا ہر مجتہد کی تقلید فرض ہوتی ہے ؟ چودہ سو سالوں میں
اسلام میں مجتہد کیا صرف چار ہی ہوئے ہیں ؟ صحابہ رضی اللہ عنهم،
تابعین رحمہ اللہ تو شاید اجتہاد کے درجہ سے محروم ہی رہے ہوں گے ؟ پھر ان
چاروں ائمہ میں سے ایک کی تقلید کس ترجیح کی بناء پر ہے ؟
جواب :یاد
رہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو شرعی حکام معلوم کرنے کے 3 تین
طریقے تھے : جو لوگ ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے وہ
ہر مسئلہ دریافت کرلیتے ، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہوتے وہ اگر
مجتہد ہوتے تو اجتہاد کرتے جیسے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یمن میں ، جو مجتہد
نہ ہوتے تو وہ اپنے علاقے کے مجتہد کی تقلید کرتے جیسے اہل یمن ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دو طریقے باقی رہے : مجتہدین
اجتہاد کرتے اور غیر مجتہدین تقلید کرتے ۔ خیرالقرون کے بعد اجتہاد کی
ضرورت باقی نہ رہی اس لئے وہ ختم ہوگیا ، اس کے بعد صرف تقلید ہی باقی رہ
گئی : یہ تقلید شروع سے پہلے دن سے ہے ۔ خیرالقرون میں کچھ مجتہدین ہوتے تھے ، اب صرف مقلدین باقی رہ گئے ہیں ، یہ تفصیل مقدمہ ابن خلدون میں ہے ۔ اس اجماع میں عملآ تمام محدثین ، مفکرین ، فقہاء ، سلاطین شامل ہیں جیسا کہ کتب طبقات سے روز روشن کی طرح واضح ہے ۔
ہمارا
سوال غیرمقلدین سے ہے کہ قرآن و حدیث سے جواب دیں کہ اجماع کی تعریف کیا
ہے ؟ اجماع کن کا اور بخاری کی اصح کتب ہونے پر اجماع کب ہوا اور کہاں ہوا
اور کن کا ہوا ؟
سوال نمبر 12:چاروں مذکورہ بالا اماموں میں سے فلاں ایک ہی کے مسائل سچے ہیں ، اس کا علم مقلد کو کیسے حاصل ہوا ؟
جواب : جس
طرح علم حساب کا ۔ مجتہد اسے کہتے ہیں جو قواعد حساب کا واضع ہو ، اسی طرح
جو کتاب و سنت سے قواعد کا استنباط کرسکے اس کو مجتہد کہتے ہیں جیسے صحابہ
رضی اللہ عنهم میں بہت قاری ہوئے لیکن انہوں نے اپنی قرأتوں کو مدون کیا ۔ اسی طرح ائمہ اربعہ رحمہ اللہ سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنهم و
تابعین رحمہ اللہ میں بہت مجتہد گزرے لیکن انہوں نے اپنے مذاہب کو مکمل
طور پر مرتب نہ کروایا ، البتہ ائمہ اربعہ رحمہ اللہ نے ان کے متواتر احکام
کو مرتب کرلیا جس طرح سات قرأتوں میں سے کسی قرأت پر بھی قرآن پڑھنا نبی
صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنهم والا قرآن پڑھنا ہی ہے ، اسی طرح چاروں اماموں میں سے کسی کی تقلید کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنهم کے طریقے پر عمل کرنا ہے ۔ ہاں
چاروں اماموں میں سے جس امام کا مذہب درسآ اور عملآ متواتر ہوگا اسی کی
تقلید کی جائے گی جیسے سات قاریوں میں سے جس قاری کی قرأت ہمارے ملک میں
تلاوتآ متواتر ہوگی اسی پر تلاوت کی جائے گی۔
سوال نمبر 13:ان
چاروں ائمہ کی تعلیم بذریعہ وحی ہوئی یا اور ائمہ سے انہوں نے پڑھا ؟ اگر
بذریعہ وحی ہوئی تو ان میں اور نبی میں کیا فرق رہا ؟ اور اگر بذریعہ اور
ائمہ ہوئی تو ان کے استاد افضل تھے یا مفضول ؟ اگر افضل تھے ان کی تقلید
کیوں نہیں کی جاتی ؟
جواب : جس
امام کا مذہب جس علاقے میں متواتر ہوگا اس پر مقلد حدیث رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے مطابق اس عقیدہ سے عمل کرے گا کہ مجتہد صواب کو پہنچتا ہے اور
خطاء کو بھی ، اس لئے مجتہد کا عمل یقینی ہے ، مقبول ہے ، جیسے تحری فی
القبلہ والے کی نماز یقینآ مقبول
ہے اور ایک اجر کا پکا یقین ہے ۔ چونکہ مجتہد فقط خطاء پر ماجور ہے اور
دوسرے اجر کی مجتہد اور مقلد کی خدا کی رحمت واسعہ سے امید ہے ۔ اس کے
برعکس غیرمقلدین کا عمل جو محض خودرائی پر مبنی ہے ۔ خودرائی کسی شرعی دلیل
سے ثابت نہیں ، وہ یقینآ مردود ہے اور اس پر گناہ لازم ہے ، وہ نیکی برباد
گناو لازم کا مصداق ہے ۔
سوال نمبر 14:یہ چاروں ائمہ افضل تھے یا چاروں خلفاء ؟ جب ان چار ائمہ کی تقلید فرض ہو تو ان چار خلفاء کی ڈبل فرض کیوں نہ ہو ؟
جواب : ائمہ
پر وحی نازل نہیں ہوتی لیکن مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھنے اور
سمجھانے میں ماہر ہوتے ہیں ، ان کے اساتذہ کے متواتر مسائل ان کی فقہ میں
آگئے جیسے صحاح ستہ والوں کے اساتذہ کی حدیثیں صحاح ستہ میں آگئیں ۔ ساتوں
قاریوں کے اساتذہ کی قرأتیں سات قرأتوں میں آگئیں۔ اسی طرح قاری عاصم رحمہ
اللہ کی قرأت پڑھنے سے ان کے اساتذہ کی قرأت پڑھی گئی اور ہر امام کی تقلید
کرنے میں ان کے اساتذہ کے مسائل پر بھی عمل ہورہا ہے۔
سوال نمبر 15:قران
و حدیث پر عمل کرنا عامی آدمیوں پر فرض ہے یا مجتہدوں اور اماموں پر بھی
فرض ہے ؟ کیا جتنا فرق ہم میں اور اماموں میں ہے اتنا اماموں اور نبی صلی
اللہ علیہ وسلم میں نہیں ؟
جواب : چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم ائمہ
رحمہ اللہ کے پیشوا اور افضل ہیں ، ان کی حیات میں ان کے اجتہادی مسائل کی
تقلید ہوتی رہی لیکن چونکہ ان کے مذاہب مدون نہ ہوئے اس لئے ائمہ رحمہ
اللہ نے ان کے متواتر مسائل کو مدون کرلیا ۔ اب ان ائمہ کرام رحمہ اللہ کے
ذریعے ان کے مسائل پر بھی عمل ہورہا ہے جیسے ساتوں قرأتوں میں خلفاء راشدین
رضی اللہ عنهم کی قرأتیں بھی پڑھی جارہی ہیں ۔
اب غیرمقلدین سے ہمارا سوال 1 : حدیث
کی کتابیں صحاح ستہ والوں نے وحی سے مرتب کیں یا استادوں سے سن کر ؟ ان کے
استاد ان سے افضل تھے یا نہیں ؟ پھر ان کے استادوں کی کتابوں کو صحاح ستہ
سے کیوں خارج کیا گیا ؟
غیرمقلدین سے ہمارا سوال 2 : صحاح ستہ والے افضل تھے یا خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم ؟ تو پھر خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی کتابوں کو صحاح ستہ میں کیوں شامل نہ کیا گیا ؟
غیرمقلدین سے ہمارا سوال 3: سات قاری افضل تھے یا خلفاء راشدین رضی اللہعنهم ؟ کیا آپ کے خیال میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی قرأتوں سے خارج کر دیا تو کیوں ؟
سوال نمبر 16:جو
ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کے علاوہ ہیں ان کی تقلید فرض ، واجب یا مباح ہے یا
نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ حالانکہ وہ ان کے استاد ہیں ۔ علم میں ، ادب میں
، زہد میں ، فقہ میں ، اجتہاد و تقوی میں ان سے بڑے ہیں ۔ یہ ان کی بزرگی
کے قائل تھی ، ان کا ادب کرتے تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنهمکی تقلید نہ کرکے نیچے والوں کی تقلید کرنا کون سی عقلمندی ہے ؟
جواب : کتاب
و سنت پر عمل کرنا مجتہد پر فرض ہے اور مقلد پر بھی فرض ہے لیکن مجتہد
اپنے اجتہاد کی روشنی میں عمل کرتا ہے اور مقلد ان کی راہنمائی میں کتاب و
سنت پر عمل کرتا ہے جیسے آنکھوں والا چاند کو دیکھ کر روزہ رکھتا ہے اور
نابینا پوچھ کر ، جیسے نماز میں قبلہ رو ہونا بینا اور نابینا دونوں پر فرض
ہے ، بینا دیکھ کر اور نابینا بینا سے پوچھ کر ۔ اسی طرح نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کا مقام مجتہد سے انتہائی زیادہ ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
اتباع مسائل منصوصہ غیر معارضہ محکمہ میں ہے ، مجتہد کی اتباع ان مسائل میں
ہے جہاں اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت نہیں ملی ، اس لئے
یہاں مقابلے کی صورت ہی نہیں ہے ۔
سوال نمبر 17:جو
امام ان چاروں ائمہ کے سوا ہیں وہ درجہ میں ان کے برابر ہوئے یا بڑھ کر یا
گھٹ کر ہیں ؟ تو ان کے مقلد وہ کیوں نہ ہوئے اور اگر بڑھ کر ہوئے ہیں تو
یہ خود ان کے مقلد کیوں نہ ہوئے ؟
جواب : صحابہ کرام رضی اللہ عنهم میں جتنے قاری ہوئے ، ان کی قرأت ہمیں ان سات قاریوں کے ذریعے مل سکتی ہے اور ان قرأتوں پر تلاوت صحابہ کرام رضی اللہ عنهم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم والی ہی تلاوت ہے ۔ اس لئے ان قرأتوں پر تلاوت کرنا نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم کی عظمت کو کم کرنا ہے نہ ان کی قرأت سے انکار و مخالفت ہے ۔ جس طرح سات قاریوں کو صحابہ رضی اللہ عنهم کے
خلاف سمجھنا روافض کا وسوسہ ہے ، اسی طرح ائمہ رحمہ اللہ کی تقلید کو
صحابہ کرام رضی اللہ عنهم کے خلاف سمجھنا وسواس الخناس میں سے ہے ۔ ائمہ
رحمہ اللہ سے پہلے مجتہدین ہی ائمہ اربعہ کے پیشوا ہیں جیسے پہلے قاری
قراء سبعہ کے پیشوا ہیں اور پہلے محدثین اصحاب صحاح ستہ کے پیشوا ہیں ۔ ان
سب نے اپنے پیشواؤں کی باتوں کو مرتب کیا ہے ۔
سوال نمبر 18: الف : جب
چار امام ہیں اور چار میں سے ایک کی تقلید کرنی ہے ، ہمیں کیا خبر کہ ان
میں سے کس کے مسئلے صحیح ہیں اور کس کے غلط ہیں ؟ پس ہم کیسے حنفی ، شافعی
بن جائیں ؟
ب :اگر
یہ چاروں مذہب برحق ہیں تو ایک مذہب پر عمل کرنے سے حق کی تین چوتھائیاں
ہم سے چھوٹ جاتی ہیں پھر تو تقلید نہ کرنے والے ہی اچھے رہے کہ جس امام کے
کلام کو قرآن و حدیث کے مطابق پایا اسے لے لیا یہی طریقہ ہم کیوں نہ رکھیں
تاکہ پورا حق ہمارے ہاتھ میں رہے ؟
ج : یہ
ظاہر ہے کہ چاروں اماموں کے مذاہب میں حلال و حرام کا فرق ہے ، پھر ان
چاروں کو برحق ماننے اور کہنے کا کیا معنی ؟ ایک چیز کو حرام کہے اور ہم
کہیں سچ ہے ، دوسرا حلال کہے تو ہم کہیں سچ ہے ، یہ کیا اندھیرا ہے ذرا
تفصیل سے بتائیں ورنہ دامن تقلید ہمارے ہاتھ سے چھوٹ ہی جائے گا ۔
جواب : الف : جس
طرح ساتوں قرأتوں میں سے آپ اسی قرأت پر تلاوت کریں گے جو آپ کے ہاں
تلاوتآ متواتر ہوگی ، جب آپ امام القرأت ہیں ہی نہیں تو آپ کو کسی قرأت کو
صحیح یا غلط کہنے کا حق بھی نہیں ۔
ب :جس طرح ساتوں قرأتوں میں سے ایک قرأت پڑھنے والوں کو پورا قرآن پڑھنے کا ثواب ملتا ہے ، اسی طرح ایک امام کی تقلید کرنے سے پوری سنت پر عمل ہوجاتا ہے ۔
ج :اجتہادی
حلال و حرام میں ہم اپنے امام کی تقلید کرتے جیسے ناسخ منسوخ میں ہم اپنے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں ۔ حضرت یوسف اور حضرت یعقوب علیہ
السلام کی شریعت میں سجدہ تعظیمی کے جواز کا حق تھا اب بھی اس کی صداقت حق
ہے لیکن ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کریں گے مگر شریعت
سابقہ کو حق کہیں گے ۔ اجتہادی حق کی مثال کچھ اس طرح ہے : ڈاکٹر ایک مریض
کو کہتا ہے کہ اچار ضرور کھانا ، دوسرے مریض کو سختی سے منع کرتا ہے ڈاکٹر
کے دونوں حکم درست ہیں ۔ کوئی مریض اتنا بیوقوف نہیں ہوتا کہ جو ڈاکٹر نے
کہا ہے اسے چھوڑ دے دوسرے پر عمل کرے ۔
پھر
اس سوال کی یہاں سرے سے گنجائش ہی نہیں کیونکہ یہاں صرف ایک ہی امام کی
تقلید ہو رہی ہے ۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام میں حلال و حرام میں اختلاف
ہے لیکن ان کا زمانہ الگ الگ ہے ، ائمہ میں حلال و حرام میں اختلاف ہے
لیکن ان کے علاقے الگ الگ ہیں ۔
سوال نمبر 19:چاروں
امام امامت کی حیثیت سے دنیا میں آئے ، اس سے پہلے اسلام پر سو سال گزرچکے
تھے تب تک نہ یہ امام تھے ، نہ یہ مقلد ، تو اس وقت کے مسلمان مسلمان بھی
تھے یا نہ تھے اور اگر تھے تو ادھورے یا پورے ؟ کیونکہ تقلید تو اس وقت تھی
ہی نہیں بلکہ وہ امام بھی نہ تھے جن کی تقلید شروع ہوئی ۔ اگر باوجود
تقلید نہ کرنے کے وہ مسلمان تھے اور کامل تھے تو آج کا اسلام جو پورا ہوگیا
اس وقت اسلام کا کونسا روپ مارا جاتا تھا جو تقلید کی ایجاد کی ضرورت پیش
آئی ؟ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنهم اور
تابعین کرام رحمہ اللہ کا اسلام ہمیں کافی نہیں جو ہمیں کسی نئے نویلے
اسلام کی ضرورت ہو ؟ اب فرائض تو سب اللہ تعالی اتارچکا ، وحی حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بند ہوگئی ، سو سال بعد امام دنیا میں آئے ،
اب کس آسمان سے کونسا فرشتہ وحی لے کر آیا جس سے سو سال کے بعد ان ائمہ
رحمہ اللہ میں سے ایک ایک کی تقلید فرض ہوئی اور مسلمین چار راستوں میں بٹ
گئے اور اللہ کے گھر بیت اللہ کے بھی چار ٹکڑے کرنے پر مجبور ہوگئے ، یہ
حنفی مصلی ، یہ شافعی مصلی ، قرآن و حدیث میں ان مصلوں کا ذکر کہاں ہے ؟
جواب : جس
طرح ان سات قاریوں سے پہلے بھی قرأت پڑھنے والے سب مسلمان تھے اور بعد میں
ان قرأتوں کے پڑھنے والے بھی مسلمان ہیں، فرق اتنا ہے کہ صحابہ کرام رضی
اللہ عنهم اس
قرأت کو قاری حمزہ کی نہیں کہتے تھے ۔ اسی طرح صحاح ستہ والوں سے پہلے
مسلمان احادیث پر عمل کرتے تھے لیکن یہ نہیں کہتے تھے کہ میں ترمذی کی حدیث
پر عمل کررہا ہوں، تو نسائی کی حدیث پر، اس لئے صرف اس نام کی وجہ سے پہلے
اور پچھلے اسلام میں فرق کرنا ایسی جہالت ہے جیسے پہاڑوں پر برف باری ہوئی
ہو گو پانی کی شکل میں بہہ نکلی، لوگ اسے پانی کہتے تھے، وہی پانی دریا کی
شکل میں آیا تو اسے دریا کہنے لگے ، دریا نہر میں آیا تو اس کا نام نہر کا
پانی ہوا ، نالے میں جانے سے نالے کا پانی کہا جانے لگا ۔ پانی ایک ہی ہے،
مختلف نام راستے کے تعارفی نام ہیں ۔ وہی طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کی طرف منسوب ہو تو اسے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا ہے ، جب
صحابہ کرام رضی اللہ عنهم میں پھیل گیا تو اس کا نام صحابہ کرام رضی اللہ عنهم کا طریقہ قرار پایا ، جب
فقہ حنفی میں مرتب ہوگیا تو اب اس کا نام فقہ حنفی قرار پایا ، یہ کہنا کہ
فقہ حنفی اور ہے اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ، یہ ایسی جہالت ہے
جیسے کوئی کہے کہ نہر کا پانی اور ، دریا کا اور ، یا یہ کہ قاری عاصم رحمہ
اللہ کی قرأت اور ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ، قاری حمزہ رحمہ اللہ
کی اور ، ان سوالات سے معلوم ہوا کہ غیرمقلد بننے کے لئے جاہل مرکب بننا
ضروری ہے۔
سوال نمبر 20:چاروں
خلیفہ یعنی خلفاء راشدین افضل ہیں یا چاروں امام افضل ہیں خلفاء سے؟ آج
چاروں خلفاء کی تقلید نہ کی جائے اور چاروں اماموں کی تقلید فرض مانی جائے ،
الٹی گنگا کیوں بہائی گئی ؟
جواب : جس طرح ساتوں قاریوں کی قرأت پر قرآن پڑھنے سے خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنهم والا
ہی قرآن پڑھا جاتا ہے ، یہ کہنا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم اور خلفاء
راشدین رضی اللہ عنهم کی قرأت چھوڑ کر قراء سبعہ کی قرأت پڑھنا غلط ہے نہ صرف جہالت بلکہ اس میں کفر کا خدشہ ہے ۔ اسی طرح کتب احادیث پر عمل کرنے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی احادیث پر عمل ہورہا ہے ، بعینہ ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کی فقہ پر عمل کرنا اور ان کی تقلید کرنا خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی تقلید ہے ۔
یہ ایسی ہی باتیں ہیں جیسے کوئی کہے کہ آپ صحیح محمدی چھوڑ کر صحیح بخاری
کیوں پڑھتے ہیں، صحیح ابوبکر چھوڑ کر ترمذی کیوں پڑھتے ہیں ، جامع فاروق
اعظم چھوڑ کر جامع مسلم کیوں پڑھتے ہیں ، مسند علی چھوڑ کر مسند احمد کیوں
پڑھتے ہیں ۔ یہ سب باتیں جہالت سے ناشر ہیں ۔
سوال نمبر 21:حضرت امام حسن ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنهم ،
حضرت امام زین العابدین ، حضرت امام باقر اور حضرت امام جعفر صادق رحمہ
اللہ افضل ہیں یا چاروں امام ان سے افضل ہیں ؟ پھر آل رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے ان بارہ اماموں کے مقلد کو ہم شیعہ اور رافضی کہیں اور ان سے کم
درجے کے اماموں کی تقلید کو فرض مانیں ، اس تفریق کی کیا وجہ ؟
جواب : ائمہ
اہل بیت فن تصوف کے امام ہیں جب کہ صحاح ستہ والے فن حدیث کے اور ائمہ
اربعہ رحمہ اللہ فن فقہ کے امام ہیں ، ہمارے تصوف کے شجروں میں اکثر ائمہ
اہل بیت کے اسماء گرامی آتے ہیں اور حدیث کی سندوں میں صحاح ستہ والوں کے
اور فقہ میں ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کے ۔
ہر گل را رنگ و بو دیگرے است یعنی ہر پھول کے رنگ اور خوشبو الگ الگ ہوتی ہے
جب
آپ صحاح ستہ کی بحث میں محدثین کو چھوڑ کر فقہاء کی نہیں مانتے تو فقہی
احکام میں فقہاء کو چھوڑ کر محدثین اور صوفیاء کی بات ماننا کیسے درست ہے؟
لکل فن رجال ::یعنی:: ہر فن کے لئے الگ الگ مرد ہیں۔
سوال نمبر 22:اگر
چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم اور ائمہ اہل بیت افضل ہیں ائمہ اربعہ
سے تو چاروں اماموں کی تقلید کیوں کی جاتی ہے ؟ ان چاروں خلفاء و حضرات
ائمہ اہل بیت کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی ؟ ہاں ان چاروں اماموں نے ان
چاروں خلفاء کی تقلید کیوں نہیں کی ؟
جواب : ایک
ہی بات کو بار بار دہرایا جارہا ہے جس طرح صحاح ستہ کی تابعداری میں
احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم امت کو ملا ، سات قاریوں نے نبی
صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء والا قرآن ہی مرتب کیا ، اسی طرح ائمہ اربعہ
رحمہ اللہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی سنت کو زندہ کیا۔ یہ جہالت ہے کہ ائمہ اربعہ رحمہ اللہ نے خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی بات نہیں مانی ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ ساتوں قاریوں نے خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم والا قرآن نہیں مانا ، اصحاب صحاح ستہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کے منکر تھے۔ معاذ اللہ.
سوال نمبر 23:چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم مجتہد تھے یا نہیں ؟ اگر تھے تو ان کی تقلید کیوں چھوڑی جاتی ہے ؟
جواب : چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم مجتہد
تھے ، ان کے مذاہب مدون نہیں ہوئے ، ان کے جو اجتہادات متواتر تھے ان کو
ائمہ اربعہ رحمہ اللہ نے اپنی فقہ میں سمولیا ، اس لئے ائمہ اربعہ رحمہ
اللہ کی تقلید خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی ہی تقلید ہے جیسے نہر کا پانی ، دریا کا پانی ہے ۔
سوال نمبر 24: چاروں خلیفہ راشد رضی اللہ عنهم چاروں اماموں کے برابر مجتہد تھے یا بڑھ کر یا گھٹ کر ؟ اگر بڑھ کر تھے تو پھر انہیں گھٹا کیوں دیا کہ ان کا مقلد ایک بھی نہیں ہے ؟
جواب : جس طرح چاروں خلفاء راشد رضی اللہ عنهم ساتوں
قاریوں سے بڑھ کر قاری تھے ، صحاح ستہ والوں سے اعلی محدث تھے، اسی طرح یہ
ائمہ اربعہ رحمہ اللہ سے بہت بڑے مجتہد تھے لیکن جس طرح بڑے محدث ہونے کے
باوجود انہوں نے اپنی کوئی حدیث کی کتاب مرتب نہیں کی اس لئے ان کی مرویات
حدیث کے لئے ہم حدیث کی کتابوں کے محتاج ہیں ، اسی طرح اعلی قاری ہونے کے
باوجود انہوں نے اپنی مکمل قرأت مدون نہ فرمائی اس لئے ان کی قرأت کے لئے
آج ہم قراء سبعہ کے محتاج ہیں ایسے ہی بہترین مجتہد ہونے کے باوجود انہوں
نے اپنے مذاہب مدون نہ کروائے ، اس لئے ان کی تابعداری کے لئے آج ہم ائمہ
اربعہ رحمہ اللہ کے محتاج ہیں؟
سوال نمبر 25:چاروں ائمہ رحمہ اللہ سے قبل چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی تقلید کی جاتی تھی یا نہیں ؟ جب نہیں کی جاتی تھی تو پھر ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کی کیوں کی جائے ؟
جواب : چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی
حیات میں ان کے اجتہادی فتاوی کی بلانکیر تقلید کی جاتی تھی ۔ اب چونکہ ان
کے مذاہب مدون نہیں اس لئے ائمہ اربعہ کے ذریعہ ان کے مسائل متواترہ پر
عمل ہورہا ہے ۔
سوال نمبر 26:ظاہر
ہے کہ چاروں اماموں کا وجود بحیثیت امام پہلی صدی میں نہ تھا ، پس پہلی
صدی کے لوگ مقلد ہوئے یا غیر مقلد ؟ اور وہ نجات پانے والے اور دائرہ اسلام
میں داخل ہوں گے یا نجات سے محروم اور دائرہ اسلام سے خارج کہے جائیں گے ؟
جواب : جس
طرح چاروں اماموں کا وجود بحیثیت امام پہلی صدی میں نہ تھا ، اسی طرح
ساتوں قاریوں کا وجود بھی بحیثیت امام پہلی صدی میں نہ تھا اور صحاح ستہ
والوں کا وجود بحیثیت امام دوسری صدی میں بھی نہ تھا ۔ اب فرمائیں ؟ کہ
پہلی دو صدیوں کے مسلمان صحاح ستہ کو مانے بغیر مسلمان تھے یا نہیں ، ان کو
آپ منکر حدیث مانیں گے یا حدیث والے ؟ اب اگر کوئی پہلی دو صدیوں کی طرح
صحاح ستہ والوں کو نہ مانے، آپ اس کو خیرالقرون والا مسلمان مانیں گے یا
نہیں ؟ اسی طرح آج بھی کوئی شخص ساتوں قرأتوں کو ترك کرکے یہ چاہے کہ میں
پہلی صدی کا مسلمان ہوں تو کیا آپ نے اس پر عمل کرلیا یا نہیں ؟ اگر آپ یہ
کہیں کہ صحاح ستہ والی احادیث اس زمانہ میں تھیں ، فرمایئے کہ اس وقت وہ : رواہ البخاری : نہیں کہتے تھے؟ یہ ساتوں قرأتیں صحابہ رضی اللہ عنهم میں
تھیں لیکن ان کا الگ نام نہیں رکھا گیا ، اسی طرح فقہی مسائل پر عمل اس
وقت بھی تھا لیکن فقہ حنفی نہیں تھا ۔ ان لوگوں کو غیرمقلد کہنا ایسی گندی
گالی ہے جیسے یہ کہنا کہ وہ صحاح ستہ والوں کو نہ مان کر منکر حدیث تھے یا
ساتوں قاریوں کو نہ مان کر منکر قرآن تھے ۔
سوال نمبر 27: چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی تقلید اب منع ہے یا نہیں ؟ اگر منع نہیں تو اماموں کی تقلید گئی اگر منع ہے تو اماموں کی بطور اولی منع ہونی چاہئے ؟
جواب : چاروں ائمہ رحمہ اللہ کی تقلید میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کے متواتر مسائل کی اسی طرح تقلید ہورہی ہے جس طرح ساتوں قرأتوں میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کے
متواتر قرأت پڑھی جارہی ہے۔ ہاں جس طرح متواتر قرأت کے خلاف کوئی شاذ قرأت
ان کی طرف منسوب ہو تو وہ قابل تلاوت نہیں ، اسی طرح مذاہب کے خلاف کوئی
شاذ قول ان کی طرف منسوب کرنا قابل عمل نہیں ۔ خوب سن لو یہاں مقابلہ شاذ
کا ہے نہ کہ قاری اور خلیفہ کا ۔
سوال نمبر 28:اگر چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی
تقلید اب منع ہے تو کیوں اور کس نے منع کی ؟ پھر چاروں اماموں کی تقلید
کیوں اور کس نے باقی رکھی ؟ ان ائمہ نے کب کہا کہ لوگ حنفی شافعی کہلوائیں ؟
جواب : چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کے
مذاہب نہ مدون ہیں ، نہ براہ راست متواتر ۔ البتہ ائمہ تک ان کے جو مسائل
متواتر پہنچے وہ ائمہ اربعہ رحمہ اللہ نے لے لئے ، ان پر اب بھی عمل ہورہا
ہے۔ رہا یہ کہ ائمہ نے کب کہا تھا کہ حنفی ، شافعی کہلوانا ، جس طرح یہ
کہنا کہ یہ بخاری کی حدیث ہے ، قاری
حمزہ کی قرأت ہے ، درست ہے اس پر اجماع ہے ، اسی طرح مجتہد کے مذہب کو
مجتہد کی طرف منسوب کرنا جس طرح اجماع سے ثابت ہے خود حدیث سے بھی ثابت ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کیا : اجتهد برأي : اپنی رائے کی نسبت اپنی طرف کی ، جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں کیا تو غیرمقلدوں کو منع کرنے کا کیا حق ہے ؟
اب
غیرمقلدوں سے ہمارا سوال : بخاری ص433 ج1 پر عثمانی اور علوی کی نسبتیں
ہیں ، کیا کوئی غیرمقلد ثابت کر سکتا ہے کہ ان کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عثمانی اور علوی کہلوانے کا حکم دیا تھا؟
سوال نمبر 29:چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم نے اپنی اپنی تقلید کا حکم دیا تھا یا نہیں ؟ اگر دیا ہے تو ہم نے کیوں نہ مانا ؟ اگر دیا تو پھر اماموں کے بارے میں حکم کیوں ہو ؟ یہاں تک کہ محمدی کہلوانا چھوڑ دیا ؟
جواب : چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی
تابعداری کا حکم خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ۔ ان کی حیات میں
براہ راست ان کی تقلید ہوتی رہی اور اب ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کے ذریعہ ان
کی تقلید ہورہی ہے ۔ محمدی کہلانے کا حکم نہ اللہ تعالی نے دیا ، نہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا اور نہ ہی خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم میں
سے کوئی محمدی کہلایا ۔ مسلمانوں کو محمدی عیسائیوں نے کہنا شروع کیا جیسے
مرزائیوں نے احمدی کہنا شروع کیا ۔ آخر امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح
محمدی کو چھوڑ کر اپنی کتاب کا نام صحیح بخاری کیوں رکھا ؟
سوال نمبر 30:اگر
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی تقلید کا حکم دیا تھا تو ان کے
بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کی تقلید جاری تھی یا نہیں؟ اگر نہ تھی تو امام ابو حنیفہ رحمہ
اللہ کی تقلید امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے زمانے میں
اور اس کے بعد کیوں جاری رہی ہے ؟
جواب : حضرت
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تقلید ان کی حیات میں جاری تھی اور اب بھی
ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کے ذریعہ جاری ہے البتہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بھی اجتہاد کا حق حاصل تھا، حضرت
عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بھی حق تھا ۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
کے بعد بھی امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جیسے
مجتہدین کو اجتہاد کا حق تھا ۔ تقلید غیر مجتہدین کے لئے ہوتی ہے نہ کہ
مجتہدین کے لئے ۔
سوال نمبر 31 :اگر
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ کی تقلید جاری تھی تو اس تقلید کو کس نے بند کیا ؟ اور کیوں بند کیا ؟
اور اسی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید بند کیوں نہ ہو ؟
جواب : جس
طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی
قرأت جاری ہے اسی طرح ان کی تقلید بھی ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کے ذریعہ جاری
ہے ، ان کا فیض بند نہیں ہوا ۔ اسی طرح فقہ حنفی کی کتابیں خلفاء راشدین
رضی اللہ عنهم کے اجتہادات کا مجموعہ ہیں ۔ یہ بات کئی دفعہ واضح کی جاچکی ہے کہ اجتہاد اور قیاس اصل میں قاعدوں کو کہتے ہیں
امام
ابو حنیفہ رحمہ اللہ اپنے مجتہدین ساتھیوں کے مشورہ سے پہلے قواعد استنباط
کرتے تھے ، جب ایک قاعدہ طے ہوگیا تو اس کے نیچے سینکڑوں مسائل آجاتے تھے
اور شاگرد آپ کے سامنے لکھتے تھے لیکن یہ مسائل قواعد کی ترتیب سے کرتے تھے
، ہر قاعدہ کے نیچے نماز ، حج ، زکوۃ کا حکم آجاتا ہے ۔ جیسے محدثین نے
احادیث میں پہلے مسانید ، معاجم مرتب کیں ، ایک جزء میں لکھ دی جاتی خواہ
نماز کی ہوں یا حج کی یا ترغیب و ترہیب کی ۔ پھر امام محمد رحمہ اللہ نے ان
مسائل کی تبویب فرمائی اور ظاہرالروایت کی چھ کتابیں مرتب کیں۔ پھر امام
محمد رحمہ اللہ کو محرر مذہب نعمان کہا جاتا ہے ۔ اس میں بھی انہوں نے اتنی
احتیاط کی کہ جو کتاب امام صاحب رحمہ اللہ کے پاس لکھی اس کو جامع کبیر ،
سیر کبیر ۔ جو قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کے پاس لکھی اس کو جامع صغیر ، سیر
صغیر ، مبسوط ، زیادات کا نام دیا ۔ یہ کتابیں اسی زمانہ سے متواتر ہوئیں
اس لئے ان کو ظاہرالروایت کہا جاتا ہے ۔ یہ کتابیں فقہ حنفی کا ماخذ ہیں ،
بعد میں ان کو سامنے رکھ کر متون مرتب کئے گئے جیسے قدوری ، کنز ، وقایہ ،
نقایہ ، ہدایہ ، تدبیر وغیرہ ۔ یہ مسائل جو متون میں ہیں وہ امام صاحب سے
متواتر ہیں ، اس لئے امام صاحب رحمہ اللہ سے ان کی نفی گویا متواترات کی
نفی ہے جیسے کوئی قرآن کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نفی کردے ۔
مسائل فقہ تین قسم کے ہیں :
1: ایک امام صاحب رحمہ اللہ سے متواتر ہیں ، ان کو متون معتبرہ کہتے ہیں۔
2:
دوسرے وہ جو متواتر نہیں اخبار آحاد کے طور پر مروی ہیں ، ان کو نوادرات
کہتے ہیں ، ان میں جو مفتی بہ ہیں وہ مذہب حنفی میں شامل کئے گئے ، غیر
مفتی بہ مذہب حنفی نہیں کہلائے ۔
3:
کچھ مسائل بعد میں پیش آئے ، ان کو بعد کے لوگوں نے امام صاحب رحمہ اللہ
کے قواعد کے ذریعہ معلوم کرلیا ۔ جیسے حساب کے قاعدہ سے نکالا ہوا جواب
حساب کا ہی ہوتا ہے ، اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قواعد پر نکالے
گئے جوابات مذہبی حنفی ہی کہلائیں گے بشر طیکہ مفتی بہ ہوں ۔ فقہ کی بڑی
کتابوں میں متواتر مسائل کو بطور مذہب حنفی لکھا جاتا ہے اور دوسری قسم کے
مسائل کو بھی روایت ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے انداز سے روایت کیا جاتا ہے ۔
جو مسائل ان کے اصول پر نکالے جاتے ہیں ان کو واقعات نوازل کہا جاتا ہے ،
ان کو عند أبی حنیفه ، عند أبی یوسف لکھا جاتا ہے ۔ بہر حال ان تین قسموں سے جو مسائل مفتی بہا اور معمول بہا ہیں صرف ان کو مذہب حنفی کہا جاتا ہے ۔
سوال نمبر 32:ذرا
مہربانی فرماکر یہ بھی بتایا جائے کہ فقہ حنفی کی موجودہ کتابوں میں سے
کوئی ایک بھی ایسی ہے جسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے خود لکھا ہو ؟
جواب : فقہ
حنفی کے وہ مسائل جو متون معتبرہ میں مذکور ہیں وہ امام صاحب رحمہ اللہ سے
اسی طرح متواتر ہیں کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن متواتر ہے
اور متون کے علاوہ شروح اور فتاوی میں بعض مسائل اخبار آحاد کی طرز پر مروی
ہیں جیسے کتب احادیث کی حدیثیں ۔ ان اصولوں میں جو مفتی بہا ہیں وہ امام
صاحب رحمہ اللہ سے ثابت ہیں اور غیر مفتی بہا ثابت نہیں ۔ تمام اہل سنت
والجماعت حنفی ، شافعی وغیرہ متون فقہ کو جو ان ائمہ سے متواتر ہیں مانتے
گئے ۔ سب سے پہلے محمد معین ٹھٹھوی شیعہ نے اپنی کتاب دراسات میں یہ شبہ
ظاہر کیا کہ ان مسائل کی نسبت ائمہ کی طرف یقینی نہیں لیکن ان خرافات رافضی
پر کسی نے کان تک نہ دھرا، حتی کہ چودھویں صدی کے شروع میں ثناء اللہ
امرتسری غیرمقلد نے اس رافضی کی غلط بات کو اپنا دین و ایمان بنالیا اور
غیر مقلدین نے اس پر شور مچایا کہ ان مسائل کا ثبوت امام صاحب رحمہ اللہ سے
نہیں لیکن اس کے باوجود خود غیر مقلدین بھی اس بات پر پورا یقین نہیں
رکھتے ۔ جب اپنی فتاوی کی کتابوں میں اپنی حمایت میں فقہ کا قول پیش کرتے
ہیں تو پھر اس کتاب کو ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت مانتے ہیں ، جب کوئی
بات انکے خلاف ہو تو کہتے ہیں کہ ان کا ثبوت امام صاحب رحمہ اللہ سے نہیں
ہے ۔
سوال نمبر 33:ذرا
یہ بھی بتایا جائے کہ فقہ کی موجودہ کتابوں میں بہت سے مسئلے خلاف طہارت
اور خلاف تہذیب ہیں جنہیں سننے سے طبیعت میں کراہت پیدا ہو اور قے آنے لگے ،
کیا یہ مسائل فی الواقع امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہی ہیں ؟
جواب : فقہ
حنفی کی کتابوں میں وہ مسائل جو مفتی بہا اور معمول بہا ہیں وہ مذہب حنفی
ہیں ، ان سے اگر کسی کو گھن آتی ہے تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ : کتے کو
گھی ہضم نہیں ہوتا ، قے آجاتی ہے ، باقی شاذ و متروک مسائل مذہب حنفی ہیں
ہی نہیں ۔
عواء الکلب لایظلم البدر
کتے کا بھونکنا چاند کی روشنی کو ختم نہیں کرتا
سوال نمبر 34:اگر ہم ان غلط اور خلاف تہذیب مسائل کو چھوڑ دیں تو دائرہ تقلید سے باہر تو نہیں ہوجائیں گے ؟
جواب : تقلید
کا تعلق صرف ان مسائل سے ہے جو مفتی بہا اور معمول بہا ہیں ، ان کو چھوڑنے
سے آدمی واقعی تقلید سے باہر ہوجاتا ہے لیکن غیر مفتی بہا اور غیر معمول
بہا اقوال کا تعلق تقلید سے نہیں ہے ۔ متواتر قرآن کو چھوڑنے والا قرآن کا
مخالف ہے لیکن شاذ اور متروک قرأتوں کی تلاوت ترك کرنے والا قرآن کا مخالف
نہیں ۔ اسی طرح سنت کا تارك اہل سنت سے خارج ہے ، شاذ اور متروك حدیثوں کا
تارك اہل سنت سے خارج نہیں۔
سوال نمبر 35:اس
تقلید کے بارے میں کچھ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی
فرمایا ہے یا نہیں ؟ اگر فرمایا ہے تو کیا فرمایا ہے ، وہ آیت یا حدیث صاف
لکھ دیں کہ جس میں ہو کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ یا فلاں امام کی تقلید
تم پر فرض ہے ، جو نہ کرے وہ بدمذہب ہے۔
جواب : اللہ تعالی فرماتے ہیں : فاسئلو أھل الذکر ان کنتم لاتعلمون : اس آیت میں لوگوں کی دو قسمیں بتادیں
1: وہ جو اہل ذکر ہیں جن کو دین خوب یاد ہے ، ان کو مجتہدین کہتے ہیں
2: وہ لوگ جو مجتہدین نہیں ہیں ان کو حکم دیا کہ تم اہل ذکر ::مجتہدین:: سے پوچھ کر عمل کیا کرو اسی کا نام تقلید ہے
رہا یہ سوال کہ آیت یا حدیث میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام ہو تو یہ ایک جاہلانہ سوال ہے ۔
جیسے قرآن کریم میں حکم ہے :: فاقروا ما تیسر من القرآن:: اس
میں قرآن پڑھنے کا حکم ہے ۔ اب جو استاد بھی میسر آجائے اس سے پڑھ لے تو
اس حکم پر عمل ہوگیا ۔ اب کوئی ضد کرے کہ آیت میں یوں لکھا ہو کہ محمد اسلم
نورانی قاعدہ محمد دین سے پڑھے اور تیسواں پارہ محمد علی سے پڑھے ، تو یہ
جہالت ہے ۔
اسی طرح قرآن میں حکم آگیا :: فانکحوا ماطاب لکم من النسآء :: اب
کوئی یہ کہے کہ یہ تو نکاح کا حکم ہے ، یہ دکھاؤ کہ قرآن پاک میں صاف ہو
کہ محمد علی کی شادی زینب بی بی سے ہو ۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ اپنی
بیماری کا علاج کرو : کرواؤں : ، اب جو بھی ڈاکٹر میسر آجائے اس سے علاج
کروالیا جائے گا ، یوں سوال کرنا کہ بیماری کا نام بھی ہو ۔ اور ہیضہ کا
علاج ڈاکٹر محمد اسلم سے کروانا اور انگریزی دوائی لینا اور ملیریا کا علاج
حکیم حنیف اللہ سے کروانا اور یونانی دوائی لینا جہالت ہے ۔
جس
طرح مومنوں کو نماز پڑھنے کا حکم قرآن میں ہے لیکن سب مومنوں کے نام مذکور
نہیں ، اب کوئی کہے کہ جب تک یہ لفظ نہ دکھاؤ گے کہ عبدالرزاق نماز پڑھے ،
میں نماز نہیں پڑھوں گا۔ اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ دلیل کے دو مقدمے
ہوتے ہیں : ایک یہ کہ مومن نماز پڑھے ، یہ مقدمہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔
دوسرا یہ کہ عبدالرزاق مومن ہے ، یہ قرآن و حدیث میں نہیں ہے بلکہ ہمارے
مشاہدہ سے ثابت ہے ۔
اسی
طرح تمہید کا پہلا مقدمہ کہ اہل ذکر سے مسائل پوچھو ، یہ قرآن میں ہے اور
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اہل ذکر میں سے ہونا امت کے اجماع سے ثابت ہے
اور ہمارے ملک میں صرف مذہب حنفی کا متواتر ہونا مشاہدہ سے ثابت ہے ۔
اسی طرح منکرین حدیث بھی آپ سے پوچھتے ہیں کہ قرآن میں ہے:: أطیعوا الرسول:: آپ ہمیں کہتے ہیں کہ :أطیعوا البخاری و أطیعوا الترمذی : وغیرہ
اور منکر قرآن بھی پوچھ سکتے ہیں کہ قرآن میں حکم ہے : فاقرو ماتیسر من
القرآن: تم ہمیں کہتے ہو : قاقرو ا قراءۃ عاصم و حمزۃ : یاد رہی کہ ائمہ کی
فقہ کا درجہ تیسرا ہے ، اگر ناموں کی ضرورت ہے تو پہلے سات قاریوں کے نام
قرآن و حدیث میں دکھائیں ، پھر صحاح ستہ والوں کے نام قرآن و حدیث میں
دکھائیں؟ اور تیسرے نمبر پر ہم سے مطالبہ کریں۔
بے روگ ہیں ان فتوی فروشوں کی زبانیں
اسلاف کی توہین پہ کرتے ہیں گزارہ
سوال نمبر 36:مجتہد کو بھی تقلید کرنے کا حق ہے یا نہیں ؟
جواب : مجتہد
پر اجتہاد واجب ہے اور اپنے جیسے مجتہد کی تقلید حرام ہے۔ ہاں اپنے سے بڑے
مجتہد کی تقلید جائز ہے یا نہیں، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جواز کے قائل
ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عدم جواز کے۔
سوال نمبر 37:صحیح
احادیث پر عمل ہر مجتہد کو اور اس کے بعد والوں کو کرنا چاہئے یا بٹوارہ
کرلیں کہ ان احادیث پر تم عمل کرو ، ان پر ہم عمل کریں گے وغیرہ۔
جواب : احادیث
کی دو قسمیں ہیں. متعارض اور غیر متعارض ۔ غیر متعارض احادیث پر سب عمل
کرتے ہیں البتہ متعارض احادیث میں تمام احادیث پر عمل ممکن نہیں ، اس لئے
احادیث راجح پر عمل کیا جاتا ہے ، ہم ان احادیث کو راجح قرار دیتے ہیں جن
کو امام صاحب رحمہ اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنهم کے پیمانہ عمل کو دیکھ کر
راجح قرار دیا اور غیر مقلدین ان احادیث کو راجح قرار دیتے ہیں جو صحابہ
رضی اللہ عنهم اور تابعین کرام رحمہ اللہ میں متروک العمل تھیں۔
سوال نمبر 38:چاروں امام بھی مقلد تھے یا نہیں ؟ اور مقلد تھے تو کس کے ؟ اور نہیں تھے تو کیوں ؟
جواب : چاروں امام مجتہد تھے ۔ مجتہد پر اجتہاد واجب ہے نہ کہ تقلید .
سوال نمبر 39:اللہ
را ذرا یہ بھی بتایئے کہ کسی امام کی طرف نسبت کرلینا یعنی شافعی ، مالکی ،
حنبلی یہ خود اماموں کی تعلیم ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو وہ عبارت کس کتاب
میں ہے؟
جواب : یہ
نسبتیں عثمانی ، علوی ، حنفی ، شافعی مسلمانوں میں بلانکیر جاری ہیں ، اس
سے ثابت ہوا کہ ان کی صحت پر اجماع ہے اور اجماع دلیل شرعی ہے ۔ آپ بھی
فرمائیں : کیا امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ میری کتاب کو اصح الکتب
بعد کتاب اللہ کہ ؟ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ فرمان کس کتاب میں ہے ؟ اور
کیا ان چھ محدثین نے کہا تھا کہ ہماری کتابوں کو صحاح ستہ کہنا ؟ ان کا
فرمان کس کتاب میں ہے ؟ اور کیا امام بخاری و مسلم رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ
جس حدیث کو ہم دونوں لکھیں اس کو متفق علیہ کہنا ؟ ان کا یہ قول کس کتاب
میں ہے ؟
سوال نمبر 40:اگر چاروں ائمہ مسائل قرآن و حدیث سے لیتے رہے تو ہمیں قرآن و حدیٹ سے مسائل لینے میں غیر مقلدین بن جانے کا خوف کیوں ہو ؟
جواب : چاروں
امام مجتہد تھے اس لئے وہ کتاب و سنت سے مسائل استنباط کرسکتے تھے ۔ ہم
بھی یہی کہتے ہیں کہ مجتہد پر اجتہاد واجب ہے لیکن جو لوگ اجتہاد کی اہلیت
نہیں رکھتے وہ براہ راست یعنی ناقص رائے سے کتاب و سنت سے مسائل لیں گے،
بمطابق حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
:: اذا وسد الأمر الی عیر أھله فانتظر ساعة ::
بخاری ص 14 ج 1 ::
تو
وہ دین پر قیامت ڈھائیں گے، اگر وہ نااہل ہوکر مجتہد بنیں گے تو بھی رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمان ہوں گے کیونکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب
بیعت لیتے تو یہ شرط ہوتی تھی
:: أن لا تنازع الأمر أھله ::
بخاری ص 1069 ج 2 = نسائی ص 159 ج 2 ::
مفھوم : ہم کسی امر کے اہل سی جگھڑا نہیں
کریں گے:: جیسے کسی ان پڑھ جاہل کو ڈاکٹری کی کتاب سے نسخے لکھ کر علاج
کرنا جرم ہے ، کسی نااہل کمہار کو ہائیکورٹ کے فیصلوں کے خلاف قانون کی
تشریح کرنا جرم ہے اور ایسا شخص توہین عدالت کا مستحق ہے ۔
اسی
طرح نااہل غیرمقلد کا براہ راست کتاب و سنت کو گھسیٹنا کتاب و سنت کی
توہین ہے ۔ اگر غیر مقلد یہ کہے کہ ہر شخص کو حق ہے کہ قرآن و حدیث میں
اپنی سمجھ کی مطابق عمل کرے تو مرزا :قادیانی ملعون: کو کیسے غلط کہیں گے ؟
وہ کہتا ہے کہ میں نے وفات مسیح قرآن سے سیکھی ::العیاذ بالله :: منکرین
حدیث کو کیسے غلط کہیں گے ؟ کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی اطاعت برحق ہے اور زندگی میں تھی ۔ جیسے ہر حاکم کی اطاعت موت کے بعد
ختم ہوجاتی ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی وفات کے بعد
باقی نہیں رہی ۔ العیاذ بالله۔
سوال نمبر 41: تقلید فرض ہے یا واجب یا مباح ، تو کن لوگوں کے لئے اور کیوں ؟
جواب : تقلید مطلق واجب بالذات ہے اور تقلید شخصی واجب بالغیر اور اس مجتہد کی تقلید ہوگی ،جس کا مذہب اس علاقے میں مدون اور متواتر ہوگا.
نوٹ : واجب بالذات کے لئے نص کی ضرورت ہے لیکن واجب بالغیر کے لئے نص کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس کو فقہ میں :: مقدمة الواجب واجب :: کہتے
ہیں ، جیسے نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اس لئے کہ اس کی نص موجود
ہے ، نماز میں فاتحہ نہ ہو تو نماز ناقص ہے لیکن یہاں کے لوگ اس واجب کو
ادا نہ کرسکتے جب تک سورۂ فاتحہ پر اعراب اوقاف نہ لگے ہوں ، اس لئے فاتحہ
واجب بالذات ہے لیکن ان کے اعراب اوقاف واجب بالغیر ہے ۔ اس لئے فاتحہ واجب
بالذات ہے لیکن بغیر واجب بالغیر ادا نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح شرعآ مجتہد
چاروں ہیں لیکن تکوینآ جس کا مذہب متواتر ہوگا تقلید اسی کی واجب ہوگی.
سوال نمبر 42: یہ جو فقہ کی کتابوں میں ہے کہ عامی کا مذہب نہیں۔ اس کے کیا معنی ؟ پھر تو حنفی ہوکر بھی حنفی نہ رہے ؟
جواب : شامی
میں لکھا ہے کہ عامی کا مذہب نہیں ہوتا ۔ ہاں جس مفتی کا التزام کرلے اس
کے مذہب کی طرف منسوب ہوگا اور اگر کسی مفتی کا التزام نہ کرے تو لامذہب ہی
رہے گا ، اس لئے مقلد تقلید کے بعد صاحب مذہب ہوتا ہے لیکن غیر مقلد ساری
عمر لامذہب ہوتا ہے ۔
سوال نمبر 43:مقلد
قرآن و حدیث کا مطلب سمجھ سکتا ہے یا نہیں ؟ حالانکہ ہماری فقہ کی کتابوں
میں ہے کہ مقلد قرآن و حدیث سے دلیل لے ہی نہیں سکتا پھر تو گویا قرآن و
حدیث منسوخ اور بے کار ہیں ، اگر لے سکتا ہے تو تقلید کی ضرورت ہی کیا ؟
اگر نہیں لے سکتا تو قرآن و حدیث ہی کیا ؟
جواب : مجتہد
اور مقلد میں مابہ الامتیاز استنباط اور اجتہاد ہے ۔ مجتہد کتاب و سنت سے
نئے پیش آمدہ مسائل اخذ کرسکتا ہے لیکن مقلد نہیں کرسکتا ۔ ہاں مجتہد کی
راہنمائی میں ان مسائل پر عمل کرسکتا ہے جو مجتہد کتاب و سنت سے اخذ کرتے
ہیں ۔ اس کو یوں سمجھیں کہ ڈاکٹری کی کتاب مریضوں کے علاج کے لئے ہے لیکن
خود مریض اس سے نسخہ نہیں لکھ سکتا ، نسخہ ماہر ڈاکٹر ہی لکھے گا ۔ کتاب و
سنت کے جو مسائل نص سے سمجھ آتے ہیں وہ ہر ترجمہ جاننے والا جانتا ہے لیکن
مسائل کے وہ الفاظ جو ان کی تہہ میں ہیں ان کو نکال کر لانا ہو تو اس کے
لئے غوطہ خور کی ضرورت ہے جو خود غوطہ خور نہیں وہ موتی کے لئے غوطہ لگائے
تو وہ موتی نہیں لائے گا بلکہ ڈوب جائے گا۔ جیسے ڈاکٹری کی کتابیں بے فائدہ
نہیں لیکن ڈاکٹر کے لئے لکھی گئی ہیں نہ کہ کمہاروں کے لئے ، قانون کی
کتابیں بے فائدہ نہیں لیکن ان کو سمجھنا وکیل کا کام ہے نہ کہ چمار کا۔
جس کا کام اسی کو ساجھے
نہیں تو ٹھینگا باجے
سوال نمبر 44: مقلد قرآن و حدیث سے دلیل پکڑ سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب : مقلد اور مجتہد میں مابہ الامتیاز نیا مسئلہ تلاش کرنا ہے ، یہ مقلد نہیں کرسکتا البتہ تلاش شدہ مسائل کے لئے کتاب و سنت کے دلائل تلاش کرسکتا ہے ،
چناچہ
امام طحاوی رحمہ اللہ ، صاحب ہدایہ رحمہ اللہ ، علامہ عینی رحمہ اللہ ،
ملا علی قاری رحمہ اللہ ، علامہ ابن حجر رحمہ اللہ ، علامہ ابن عبد البر
مالکی رحمہ اللہ اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ باوجود مقلد ہونے کے مسائل
کے ساتھ کتاب و سنت کے دلائل ذکر کرتے ہیں ۔
مقلد کی
تعریف میں عدم علم شامل نہیں ، ہاں مجتہد سے اس کی خاص دلیل کا مطالبہ مقلد
نہیں کرتا جیسے امتی کو یہ حق حاصل نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو
ماننے کے بعد جزئیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے الجھے ، کہ اس مسئلہ کی
دلیل دو گے تو عمل کروں گا ورنہ نہ کروں گا ۔امتی اپنے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم سے بلامطالبہ دلیل مسئلہ تسلیم کرلیتا ہے ۔ اپنی تسکین قلب کے لئے
کوئی دلائل جمع کرلے یا مخالفین کی زبان بندی کے لئے اپنی نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کے مسائل پر دلائل بیان کرے ، اس سے وہ امتی ہونے سے نہیں نکلتا
بلکہ اعلی درجہ کا امتی شمار ہوتا ہے ۔ اسی طرح مقلد اپنے امام سے
بلامطالبہ دلیل تسلیم کرلے ، اپنے تسکین قلب کے لئے خود اس کے دلائل تلاش
کرے یا مخالفین کی زبان بندی کے لئے امام کے مسئلے بیان کردے تو وہ اپنے
امام مجتہد کا نافرمان نہیں ہوگا بلکہ اپنے امام مجتہد کا اعلی درجہ کا
وفادار ہوگا ۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید میں ہے مزہ
کیوں میں چباؤں پتے ثمر چھوڑ کر ؟
سوال نمبر 45: چار
مصلے مکہ معظمہ میں خاص خانہ کعبہ میں قائم ہوئے تھے ، ان کو کس نے قائم
کیا تھا اور کیوں قائم کیا اور کب قائم کیا؟ کیا اس سے مسلمانوں کے دین کے
ٹکڑے نہیں ہوئے ؟ اور اماموں نے اسے کیوں قائم نہ کیا بلکہ یہ ساتویں صدی
کی بدعت ہے ۔
جواب : ساتویں
صدی سے لے کر 1365ھ تک مکہ مکرمہ میں چار مصلے رہے جس سے پوری دنیا پر
واضح رہا کہ اہل سنت کے چار مذاہب ہیں ۔ ان کا فائدہ یہ تھا کہ اہل سنت کے
نام سے کوئی فرقہ نیا نہیں بن سکتا ۔ جس ملک میں نیا فرقہ بنتا لوگ فورآ
پوچھتے خانہ کعبہ میں تمھارا کون سا مصلی ہے ؟ جب وہ نہ بتا سکتا تو ان کا فتنہ وہیں ختم ہوجاتا ۔ 1365ھ میں نجدی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے ایک حنبلی مصلی باقی رکھا ۔ کعبہ میں جب چار 4 مصلے تھے تو غیرمقلدوں کا مصلی اس وقت بھی نہ تھا ، اب ایک ہے وہ بھی مقلدوں کا ہے غیر مقلدوں کا اب بھی نہیں ۔
اس
لئے غیر مقلدوں کا تعلق کبھی بھی نہ رہا ۔ آج جو غیر مقلد شور مچاتے ہیں
کہ وہاں کا امام رفع یدین کرتا ہے ، وہ رفع یدین غیر مقلدین کا امتیازی
نشان نہیں وہ حنبلی ، شافعی بھی کرتے ہیں ۔
غیر مقلدین یہ بتائیں کہ تقریبآ چھ 600 سو سال خانہ کعبہ میں چار 4 مصلے رہے کیا چاروں حق تھے یا نہیں ؟
اگر صدیوں تک وہاں ناحق رہ سکتا ہے تو یہ حکومت جس کی ابھی ایک صدی مکمل نہیں ہوئی ان کا طریقہ ناحق ہوسکتا ہے یا نہیں ؟؟
ہم
4 چاروں کو برحق مانتے ہیں ۔ غیر مقلدین تقلید کو شرک کہتے ہیں وہ بتائیں
کم از کم چھ 600 سو سال کعبہ میں شرک ہوتا رہا ؟ کعبہ اس وقت کعبہ بھی تھا
یا نہیں ؟؟
سوال نمبر 46:جب
کہ ہمارے نزدیک چاروں مذاہب برحق ہیں پھر اہل حدیث کو جو ایک برحق مذہب ہے
کے مطابق آمین ، رفع یدین ، اور سورۂ فاتحہ بجالاتے ہیں ، کیوں روکا جائے ؟
جواب : چاروں مذاہب برحق ہیں ، ان کی مثال جیسے چار کھیت ہوں اور ان میں سے وہ آدمی جس کا کھیت نہیں وہ مانگ کر گنا لے لے ، یقینآ حلال ہے
لیکن
غیر مقلدوں کی طرح گنا ایک کھیت سے چوری کرلیا ، آلو دوسرے کھیت سے چوری
کرلئے ، لکڑیاں تیسرے کھیت سے چوری کرلیں ، یہ چوری کا مال یقینآحرام ہے ۔
وہ
چاروں مذاہب ہیں ، غیر مقلدیت چوری ڈاکہ کی مارکیٹ ہے ۔ اتنی بے غیرتی ہے
کہ ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کو دین کے ٹکڑے کرنے والا کہا جاتا ہے اور انکے
مسائل چوری کرکے نماز میں شامل کئے جاتے ہیں ، ہم اسے نمک حرامی کہتے ہیں ۔
انسان جس دیگ سے کھائے اسی میں پیشاب کرے ، کتا جہاں سے کھاتا ہے ان کو
نہیں بھونکتا ہے ۔
غیرمقلد ایسا باؤلا کتا ہے جہاں سے کھاتا ہے انہی کو کاٹتا ہے
عواء الکلب لایظلم البدر
کتے کا بھونکنا چاند کی روشنی کو ختم نہیں کرتا
سوال نمبر 47: اہل سنت والجماعت کی کیا تعریف ہے ؟ جب کہ مقلد نہ سنت سے دلیل لے سکے نہ جماعت صحابہ کے اجماع سے ، پھر اہل سنت کیوں کہا جائے ؟
جواب : اہل
سنت وہ لوگ ہیں جو دلائل کو مانتے ہیں ۔ سنت میں علم قرآن کا اور نمونہ
عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا ، والجماعت میں صحابہ کرام رضی اللہ
عنهم کا اجماع جس کی پہچان ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کے اجماع سے ہوتی ہے اور
حنفی ، شافعی میں اجتہادی مسائل اور ہمارے لئے اجماعی مسائل حجت قاطعہ ہیں اور اجتہادی اختلافی مسائل رحمت واسعہ ہیں ۔ یہ کہنا کہ مقلد کتاب و سنت یا اجماع کو نہیں مانتا ، یہ جھوٹ ہے ۔
فقہ حنفی کے چار اساس
کتاب و سنت اجماع و قیاس شرعی
سوال نمبر 48: اہلحدیث
صرف کتاب و سنت پر عمل کرنے والی جماعت ہے ۔ جب سے کتاب و سنت ہے تب سے یہ
ہے یا بعد میں اس کا عامل کوئی نہیں رہا تھا یعنی کتاب اللہ اور حدیث رسول
صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی کا عمل ہی نہ تھا حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کے عامل قیامت تک رہیں گے۔
جواب : اہلحدیث
انگریز کے دور سے پہلے کسی مذہبی فرقہ کا نام نہ تھا بلکہ ایک علمی طبقہ
کا نام تھا جیسے محدث یا شیخ الحدیث کو اہل حدیث یا اصحاب الحدیث کہتے تھے ۔
اسی
طرح انگریز سے پہلے اہل قرآن کسی مذہبی فرقے کا نام نہ تھا بلکہ ایک علمی
طبقہ کا نام تھا جو قرآن کا حافظ ہو ۔ اس لئے اہل قرآن ، اہلحدیث بحیثیت
فرقہ انگریز سے پہلے کہیں وجود میں نہ تھا ۔ مذہبی فرقے اور علمی طبقے کے
نام میں ایک واضح فرق ہوتا ہے ، مذہبی فرقے کا نام ہر عالم ، جاہل ، بچے ،
بوڑھے پر بولا جاتا ہے جیسے عالم سنی ، جاہل بھی سنی ، بچہ بھی سنی ۔ علمی
طبقے کا نام ، جب تک علم حاصل نہ کرے ، اس پر استعمال نہیں ہوتا ، مثلا شیخ
الحدیث کے بیٹے کو شیخ الحدیث نہیں کہتے جب تک علم حاصل نہ کرے ، سائنس
دان کی بیوی کو سائنس دان نہیں کہتے جب تک وہ سائنس نہ پڑھی ۔ اس لئے ہمارا
مطالبہ ہے کہ اگر تمھارا دعوی
ہے کہ انگریز سے پہلے اہلحدیث کسی فرقے کا نام تھا تو صرف ایک حوالہ دیں
کہ انگریز سے پہلے کسی ان پڑھ کو اہلحدیث یا اہل قرآن کہا گیا ہو ؟؟؟ ہم فی
حوالہ آپ کو دس 10،00،000 لاکھ روپے انعام دیں گے ۔
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
سوال نمبر 49:قیامت
کے دن حمد کا جھنڈا صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہی ہوگا یا ان
چاروں اماموں کے بھی جھنڈے الگ لہرارہے ہوں گے ؟ حوض کوثر صرف حضور صلی
اللہ علیہ وسلم ہی کا ہوگا یا چاروں اماموں کے بھی ہوں گے ؟ اگر یہ صرف
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے تو پھر ہم دنیا میں کیوں ادھر ادھر
منہ ماریں ؟
جواب : قیامت
کے دن حمد کا جھنڈا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہوگا اس کے نیچے
سارے امام مقلدین سمیت ہوں گے ، اسی طرح حوض کوثر پر بھی سب حاضر ہوں گے ۔
امام شعرانی رحمہ اللہ نے قیامت کا نقشہ جو اپنے کشوف سے مرتب کیا ہے اس
میں حنفی ، شافعی سب مقلدین تو میدان قیامت میں پل صراط پر بھی اور جنت کے
دروازے میں بھی دکھائے گئے ہیں ۔ غیرمقلدین کا وہاں نام و نشان تک نہیں وہ
پہلے ہی دوزخ میں گرچکے ہوں گے ۔
نہ خدا ہی ملا ، نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے ، نہ ادھر کے رہے
سوال نمبر 50:اگر
کسی امام کے پاس صحیح حدیث پہنچے اور وہ اس امام کے قول کے خلاف ہو تو اسے
کیا کرنا چاہئے ؟ اور جو یہ کہہ کر حدیث کو ٹال دے کہ یہ میرے مذہب میں
نہیں ، وہ مسلمان رہا یا اسلام سے خارج ہوگیا ؟ اور ایسے وقت مقلد کو کیا
کرنا چاہئے ؟
جواب : اللہ
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کتاب و سنت فقہاء سے سمجھنے
چاہئیں اس لئے اگر عامی کو حدیث ملے تو فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم
فرب حامل فقه الی من هو أفقه منه و رب حامل فقه لیس بفقیه
ترمذی شریف ابواب العلم ص 94 ، ج 2:
کے
مطابق فقیہ کے پاس لے جانی چاہئے اس لئے غیر مقلدین فقہاء سے سمجھنے کی
بجائے اپنی رائے سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں وہ فقہاء کے نہیں بلکہ خدا اور
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمان ہوتے ہیں ۔ آپ تحریر کرلیں غیرمقلدین
کو یہ حدیث دکھائیں جو ان کے عقیدہ کے خلاف ہو وہ کبھی اس پر عمل نہ کریں
گے اور کہیں گے لکھ دو ، ہم اپنے مولوی : غیرفقیہ : سے سمجھیں گے ۔ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے فقیہ سے سمجھنے کا حکم دیا ، وہ خود غیر فقیہ ہیں اور
غیر فقیہ کے پاس جاتے ہیں ۔
محدث بن کے دنیا میں ہوئے ظاہر جو البانی
سلف کو چھوڑ کر ہونے لگی تقلید البانی
اور
بنے پھرتے ہیں علامے حکیم و ڈاکٹر کوئی
ذکر اسلاف کا لیکن نئی رسموں کے یہ بانی
(with courtesy of: ALLAMA DR. FAIZ AHMAD CHISHTI )
No comments:
Post a Comment