Total Pageviews

Abdulamin BarkaTi Qadri

Friday, October 14, 2016

ہند میں مدارس دینیہ کی تباہی کا اصل سبب

*ہند میں مدارس دینیہ کی تباہی کا اصل سبب*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بھی ملک ، کوئی بھی شہر ، کوئی بھی گاؤں ، کوئی بھی گھر ، کوئی بھی تنظیم اور کوئی بھی اِدارہ اُس وقت زَوال پَزیر ہوتا ہے جب اس کی باگ ڈور نااہل اور غیر ذمہ دار لوگوں کے ہاتھ میں پہنچ جائے ۔
لوگوں کی نا اَہلی کا بُرا اثر دین ودنیا دونوں پر ہوتا ہے اور یہی دونوں کی بربادی کا سبب بھی ہے چنانچہ رسولُ اللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ  *''لَاتَبکُوا عَلَی الدّینِ إذا وَلِیَهٗ أھلُهٗ وَابکُوا علیهِ إذا وَلِیَهٗ غیرُ أھلِهٖ''*
یعنی دین پر اُس وقت مت رونا جبکہ اُس کی سر پَرستی اَہل لوگوں کے ہاتھ میں ہو ، دین پر اس وقت رونا جبکہ اس کی سرپرستی نااہلوں کے ہاتھ میں ہو اس حدیث سے یہ پتاچلا کہ نا اہلوں کی نا اہلی دین کو لے ڈوبی گی
اور ایک حدیث میں ہے: *إذَاوُسّدَ الأمرُإلٰی غَیْرِأھلِهٖ فَانتَظِرِ السَّاعَۃَ "*
یعنی جب معاملہ نا اہلوں کے سپردکردیاجائےتو قیامت کا انتظار کرنا''
اس حدیثِ پاک میں قیامت کے انتظار کی بات یہ بتارہی ہے کہ نا اہلوں کی نااہلی دنیا کو بھی لے ڈوبے گی
شرعًا معلّمی اور استاذی کا اہل وہ ہے جس کے پاس حقیقۃً علم ہو اور وہ اپنی ہر بات طلبہ کے ذہن نشین کرنے کا ہُنَر رکھتا ہو ، عمل ہو اور وہ طلبہ کو با عمل بنانے کی تڑپ رکھتا ہو
یہ چاروں باتیں تدریسی اہلیت کا لازمہ ہیں۔ اِن کے بغیر کسی سے بھی صحیح تعلیم وتربیت اور اَفرادسازی کی امید کھلی بیوقوفی ہے.!
آج ہندوستان کے بیشتر مَدارِس میں خُصوصًا یوپی میں مُدرس کی تقرُّری اس کے علم ،صلاحیت اور استتحقاق پر نہیں ہوتی بلکہ رشتے داری ، دوستی ، دنیوی مَنفَعَت اور رِشوت وغیرہ کی بنا پر ہوتی ہے اور اپنے رشتے دار ، دوست ، قریبی اور چاپلوس کو مستحق ثابت کرنے کیلئے پوری کوشش بلکہ مُنَظَّم سازش کی جاتی ہے۔ اس بلا میں نہ یہ کہ صرف عوام بلکہ اچھے اچھے اہل علم حتی کہ خانقاہوں کے بوریہ نشین بھی گرفتار ہیں۔ اپنی اولاد ، احباب اور نا اہل طلبہ کو جگہ کا حقدار ثابت کرنے کیلئے طرح طرح کے بیجا اِقدامات کئے جاتےہیں ۔ اگر اولاد انگریزی پڑھ رہی ہو تو بھی انھیں عربی فارسی بورڈ کا فرضی امتحان دلاکر عالم وفاضل باوَر کرایاجاتا ہے اس کے لئے باقاعدہ نقل کرنے اور کرانے کا جرم عظیم بھی کیا جاتا ہے گھوس کی صورت بھی اپنائی جاتی ہے ،اس طرح سے لوگ نا اہلوں کا استحقاق ثابت کرتے ہیں اور اہل حضرات کا حق مارتے ہیں ،خود مَدارسِ اسلامیہ کے اَساتذہ دو پیسوں کی لالچ میں آکر یا یونہی دنیاوی رَواروِی میں غیر مستحِقّین کا ہیلف کرکے '' نا اہلی '' کو پَروان چڑھاتے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں غیر عالم وفاضل فرضی عالم وفاضل بن کر علما کی جگہ راج کررہے ہیں
ایسی صورت میں تاریخ مَدارِسِ اسلامیہ کی تباہی کا مَرثیہ پڑھنے پر مجبور ہے اور مَدارِسِ اسلامیہ کی تباہی صرف مدارِسِ اسلامیہ کی ہی تباہی نہیں ہے بلکہ پوری قومِ مسلم کی تباہی ہے اس لئے کہ مَدارسِ اسلامیہ ہی اسلامی تعلیم کاسرچشمہ اور مسلمانوں کا دینی مرکز ہیں یہ بگڑے تو سب بگڑے ۔کسی نے سچ کہا کہ ؂
*چو کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی*

آج مَدارِس تو بہت ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے حال پر رونا آرہاہے ۔اگر سال بھر میں ایک مدرسے سے پانچ سو طلبہ پڑھ کر فارغ ہوتےہیں تو صحیح معنوں میں ان میں پانچ دس ہی کام کے لائق ہوتے ہیں اگر مدرسوں میں مُدرّسین و مُلازِمین کی تقرُّری اہلیَّت کی بِنا پر ہوتی تو انھیں موجودہ حالتِ زار سے دوچار نہ ہونا پڑتا
لیکن افسوس ! کہ آج صورتِ حال ایسی کردی گئی ہے کہ جلدی " اہل " مل نہیں پاتے ہیں اور نہ ہی اَراکین و انتظامیہ کو " اہل "کی فکر ہے
یادرکھو !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: *ﻣَﻦ ﻭُﻟِّﻲَ ﻣِﻦ ﺃﻣﺮِ ﺍﻟﻤُﺴﻠﻤﻴﻦَ ﺷﻴﺌًﺎ ، ﻓَﻮَﻟّٰﻰ ﺭَجُلًا ﻭَﻫُﻮَ ﻳَﺠِﺪُ ﻣَﻦ ﻫُﻮَ ﺃﺻﻠَﺢُ ﻟِﻠﻤُﺴﻠِﻤِﻴﻦَ ﻣِﻨﻪٗ ﻓَﻘَﺪ ﺧَﺎﻥَ ﺍﻟﻠّٰﻪَﻭَﺭَﺳُﻮﻟَﻪٗ*
یعنی جو مسلمانوں کے کسی معاملے کا اِختیار رکھتا ہو اور وہ اُس معاملے میں اُن کیلئے زیادہ مناسب شخص کو چھوڑکر کسی اَور کو ان کا والی ونِگراں بنائے اس نے واقِعۃً اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت کی۔
اور ایک روایت میں یہ ہے کہ : *ﻣَﻦ ﻗَﻠَّﺪَ ﺭَجُلًا عَمَلًا ﻋَﻠﻰٰ ﻋِﺼَﺎﺑَﺔٍ ﻭَﻫُﻮَ ﻳَﺠِﺪُ ﻓِﻲ ﺗِﻠﻚَ ﺍﻟْﻌِﺼَﺎﺑَﺔِ ﺃﺭﺿٰﻰ ﻣِﻨﻪٗ ، ﻓَﻘَﺪﺧَﺎﻥَ ﺍﻟﻠّٰﻪَ ﻭَﺧَﺎﻥَ ﺭَﺳُﻮﻟَﻪٗ ﻭَﺧَﺎﻥَ ﺍﻟﻤُﺆمِنِینَ*
یعنی جو کسی شخص کو ایسی جماعت پر عامِل مُقرَّر کرے جس جماعت میں وہ اس سے بہتر شخص کو موجود پاتاہو تو بے شک اس نے اللہ کے ساتھ خیانت کی ،اس کے رسول کے ساتھ خیانت کی اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی
اس سے پتہ چلا کہ کوئی بھی عہدہ اس کے اہل کا ہی حق ہے اور اللّٰہ تعالی فرماتاہے *:إنَّ اللّٰهَ يأمُرُكُم أن تُؤَدُّوا الأمَاناتِ اِلٰي أهلِها"*
يعني بیشک ال لہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے حوالے کرو
اور ارشاد فرماتا ہے " *ﻳﺎﺃﻳﻬﺎ ﺍﻟﺬﻳﻦ ﺁﻣﻨﻮﺍ ﻻ ﺗﺨﻮﻧﻮﺍ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺍﻟﺮﺳﻮﻝ ﻭﺗﺨﻮﻧﻮﺍ ﺃﻣﺎﻧﺎﺗﻜﻢﻭﺃﻧﺘﻢ ﺗﻌﻠﻤﻮﻥ "*
یعنی اے ایمان والو! تم جان بوجھ کر اللہ ورسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنے پاس رکھی گئی امانتوں میں خیانت نہ کرو
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : *ﻣَﺎ ﻣِﻦ ﺭﺍﻉٍ ﻳَﺴﺘَﺮﻋِﻴﻪِﺍﻟﻠّٰﻪُ ﺭِﻋَﻴَّﺔً ﻳَﻤُﻮﺕُ ﻳَﻮﻡَ ﻳَﻤُﻮﺕُ ﻭَﻫُﻮَ ﻏﺎﺵٌّ ﻟَﻬَﺎ ، ﺇلَّا ﺣَﺮَّﻡَ ﺍﻟﻠّٰﻪُ ﻋَﻠَﻴﻪِ رَائِحَۃَ ﺍﻟﺠَﻨَّﺔ* ـ
یعنی کسی بھی حَلقے کا ذمّہ دار اپنے حلقے سے سےدغابازی کرکے جس دن بھی مرے گا تو اس کے مَرتے ہی اللہ اس پر جنت کی خوشبو حرام کردے گا
اگر ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ کسی عہدہ پر کسی کو فائز کرسکتے ہیں تو ضروری ہےکہ اس کا اہل تلاش کر ہی اس کے سپرد کریں اس لئے کہ وہ عہدہ اسی کا حق ہے جو کہ ہمارے پاس محض امانت ہے ورنہ ہم اس اہل کے حق میں گرفتار ہونے کے ساتھ اللّٰہ ورسول اور قیامت تک جنھیں بھی نا اہل کی تقرُّری کے سبب کوئی نقصان پہنچے ان سب کے حق میں گرفتار ہوں گے
لیکن آج یہ تماشا دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اگر کسی نے اپنی طاقت استعمال کرکے کسی اہل کو اس کا حق دیدیا اور اسے اس کی جگہ پر مُتَمَکّن کردیا تو وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں نے اس کے اوپر بڑا احسان کیا ہے اور وہ بسا اوقات نہایت مُتَکبّرانہ انداز میں اس کا ذکر بھی کرتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس حقدار پراحسان نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس پر احسان کیا کہ اس نے حقدار کو اس کا حق دیا لیکن آگے اس نے احسان جتا کے اپنا اجر ضائع کرلیا
اس کو اپنی اصلاح کی سخت ضرورت ہے کیونکہ وہ منافق اَعرابیوں کے طریقے پر گامزن ہے قرآن پاک میں ہے کہ " *ﻳَﻤُﻨُّﻮﻥَ ﻋَﻠَﻴﻚَ ﺃﻥ ﺃﺳﻠَﻤُﻮﺍ قُل لَا ﺗَﻤُﻨُّﻮﺍ ﻋَﻠَﻲَّ ﺇﺳﻼﻣَﻜُﻢ ﺑَﻞِ ﺍﻟﻠّٰﻪُ ﻳَﻤُﻦُّ ﻋَﻠَﻴﻜُﻢ ﺃﻥ ﻫَﺪَﺍﻛُﻢ ﻟِﻺﻳﻤﺎﻥِ ﺇﻥ ﻛُﻨﺘُﻢ ﺻﺎﺩِﻗِﻴﻦَ"*

یعنی اے میرے محبوب!منافق اَعرابی تم پر اپنے ایمان لانے کا احسان رکھتے ہیں۔تم فرمادو کہ تم اپنے ایمان لانے کا احسان مجھ پر مت رکھو بلکہ اگر تم سچے ہو تو اللہ تم پر احسان رکھتاہے کہ اس نے تمھیں ایمان کی ہدایت دی _
کسی حقدار کو اس کا حق دیکر احسان جتانا انتہائی گھٹیا اور پَست فطرت لوگوں کا کام ہے اور حقدار کو اس کا حق نہ دینا اس پر ظلم ، اللہ ورسول کے ساتھ خیانت اور مسلمانوں کے ساتھ دغابازی ہے
لاکھوں لاکھ کی لاگت سے جلسے جلوس کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ہم مدرسین کی تقرُّری سے پہلے پچیس پچاس ہزارخرچ کرکے کچھ مخلص ،باصلاحیت اور بیجا رِعایت سے بچنے والے علماءِ کرام کو بلواکر ان کی اہلیت کی جانچ کرلیں پھر ان کی تقرُّری کریں نا اہلوں کی تقرری کے بعد تعلیمی معیار بنانے کیلئے کتنی بھی کتابیں بدلیں کتنے بھی نئے نصاب مقرر کریں اور کتابوں کی کتنی بھی مقدار یں متعین کریں۔لیکن کامیابی کی امید نہ رکھیں اِس لئے کہ اِن تدبیروں سے اس خامی کی تَلافی ممکن نہیں۔
اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بحرمۃ النبی الامین صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم
🖋 ازقلم :محمد مشاھد رضا عبیدالقادری ضلع گونڈہ یو۔ پی
💌❣💌❣💌❣💌
❣اسیر بارگاہ رضا❣
📧 *عبدالامین برکاتی قادری*
🇮🇳 *ویراول گجرات ہند*

No comments:

Post a Comment