Total Pageviews

Abdulamin BarkaTi Qadri

Sunday, October 30, 2016

ابھی نہیں تو کبھی نہیں

😰 *ابھی نہیں ؛تو کبھی نہیں*  ــــــــــــ😰

آج ہندوستان میں فتنہ و فساد کا بازار گرم ہے، چاروں طرف سے یلغار ہے، اور کفر کی زد پہ اسلام و مسلمان ہیں ، جب سے 'بی جے پی' حکومت آئی، اسلام کو نشانہ بنایا ہوا ہے، طرح طرح کے شوشے نکال کر بھائی چارگی اور اتحاد کو تارتار کیا جا رہا ہے،  ہندوستان ایک سکیولرزم ملک ہے، ہندوستان کے آئین کے تحت سبھی کو اپنے اپنے مذہب و مسلک کے مطابق زندگی گزارنے کا پرا پرا حق ہے، اس کے حق کو کوئی چھین نہیں سکتا، اگر چھینوں گے، تو مسلمان پھر سے آزادی کی ایک اور نئی جنگ لڑےگا،اور اگر لڑےگا تو ہندوستان کربلا کا میدان بن جائےگا،
تاریخ گواہ ہے، اور ہندوستان کے بےشمار غیرمسلموں نے بھی اپنی اپنی تاریخی کتابوں میں لکھا ہے، مسلمان جب بھی جنگ میں گئے حسینی شجاعت لیکر گئے اور حسینی شہادت لیکر آئے، مگر پیچھے نہیں ہٹے، امام حسینؒ بھی کربلا میں یزید کے مقابل شریعت مصطفی ؒﷺ کو ہی بچانے نے گئے تھے،
یزید پلید ایک صحابی کا بیٹھا تھا، مگر جب شریعت میں مداخلت کی تو صحابی کے بیٹے کو بھی جوتے کی نوک پہ رکھا گیا،اور اس سے مقابلہ کیا گیا،؛ اگر چائی بیچنے والا، شریعت میں مداخلت کرےگا تو اس کا حشر کیا ہوگا،نمرود،اور فرعون سے کم نہ ہوگا،
امام حسین ؒنے یزید سے  شریعت کو بچایا اور اسی بچے ہوئے کو ہند کا راجہ میرا خواجہ معین الدین چشتیؒ نے پھیلایا، اور اسی پھیلے ہوئے کی یہ روحانی اولاد ہیں، اگر شریعت میں مداخلت کی تو سر کاٹ بھی سکتے ہیں اور کٹا بھی سکتے ہیں؛

*آج اگر ہند میں* ــــــــــ
آواز بلند ہوتی ہے تو شریعت کے خلاف ،مسلمان کے خلاف، مائیک پہ اذان کے خلاف، چار شادیوں کے خلاف، لو جہاد کے خلاف، عورتوں کے پردہ کے خلاف، ہندوستان چھوڑدوگے کے خلاف،
مسلم ختنے کے خلاف، اور تین طلاقوں کے خلاف: اور بھی نہ جانیں کن کن کے خلاف یہ آواز اٹھاتے ہیں اور مسلمانوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں،

*اے مسلماں* ـــــــــ ! اگر آج تو نے آواز نہیں اٹھائی تو ہمیشہ کے لئے تیری آواز کو دبا دیا جائےگا،اورکبھی نہیں اٹھا سکےگا اس لئے، *ابھی نہیں ؛تو کبھی نہیں،* آج ہی اپنی آواز کو کر بلند اور حسینی کردار و رنگ میں رنگ جا، ورنہ تیرانام ،تیرا جاہ و جلال صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا

*یہ عبرت کی جاہ ہے کوئی تماشہ نہیں ہے* ـــــــــــ😡
کہتے ہیں کسی جگہ ایک مرغا روزانہ فجر کے وقت اذان دیا کرتا تھا، ایک دن مرغے کے مالک نے اسے پکڑ کر کہا: آج کے بعد اگر تو نے پھر کبھی اذان دی تو میں تیرے سارے پر وغیرہ اکھاڑ لونگا، مرغے نے سوچا کہ ضرورت پڑ جائے تو پسپائی میں بھی حرج نہیں ہوا کرتا اور پھر شرعی سیاست بھی تو یہی ہے کہ اگر جان بچانے کیلئے اذان دینا موقوف کرنا پڑ رہا ہے تو جان بچانا مقدم ہے، اور پھر میرے علاوہ بھی تو کئی اور مرغے ہیں جو ہر حال میں اذان دے رہے ہیں، میرے ایک کے اذان نا دینے سے کیا فرق پڑے گا. اور مرغے نے اذان دینا بند کردی، ہفتے بھر کے بعد مرغے کے مالک نے ایک بار پھر مرغے کو پکڑ کر کہا کہ آج سے تو نے دوسری مرغیوں کی طرح کٹکٹانا ہے، نہیں تو میں تیرے پر بھی نوچ لونگا، اور تجھے مار دونگا، مرغے نے اپنی وضع داری کو پس پشت ڈالا اور مرغیوں کی طرح کٹکٹانا بھی شروع کردیا، مہینے بھر کے بعد مرغے کے مالک نے مرغے کو پکڑ کر کہا اگر تم نے کل سے دوسری مرغیوں کی طرح انڈہ دینا شروع نا کیا تو میں نے تجھے چھری پھیر دونگا، اس بار مرغا رو پڑا اور روتے ہوئے اپنے آپ سے کہنے لگا: *کاش میں اذانیں دیتا دیتا مر جاتا تو کتنا اچھا ہوتا، آج ایسا کوئی مطالبہ تو نا سننا پڑتا*،😰

*انتہائی معذرت کے ساتھ!*
جو یہ سوچتے ہیں کہ یہ سب مولویوں کے مسائل ہیں،ہمیں ان سے کوئی خبط نہیں، *اے نادان* تو بھی مسلماں ہیں تیرا بھی حساب و کتاب ہوگا،سنبھل جا..........!

*کیا ہو گیا ہے ہمیں؟* ــــــــ
آج ہماری حالت اس مرغے جیسی ہوگئی ہے ، اور آج اس مرغے کی طرح ہم سے انڈے دینے کے مطالبے کئے جارہے ہیں ،اور اسلام سے دستبرادر ہونے کی چالیں چلائی جارہی ہیں،

*کاش* ہم اسلام کی آذان دیتے دیتےاور شریعت محمدیﷺ کو بچاتے ہوئے قربان ہوجاتے تو ہمارا مقام بھی امام احمد بن حنبلؒ سے کم نہ ہوتا ۔!!!!!

*مگر آہ صد افسوس* ـــــــــ
ہم سے تو وہ مرغا اچھا تھا جسے یہ احساس تو ہوا، ہمیں تو ابھی تک یہ احساس ہی نہیں ہے کہ شریعت محمدیؑ میں مداخلت کی وجہ سے امام حسین نے اپنا گھر کا گھر راہ حق میں قربان کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!!

🖊⚘ *صوت القلم*⚘
📖⚘ *عبدالامین برکاتی قادری*
🇮🇳 *ویراول گجرات ہند*

Monday, October 17, 2016

عورت طلاق کیوں نہیں دے سکتی

*عورت طلاق کیوں نہیں دے سکتی اور عورت کو حلالہ کیوں کروانا ہوتا ہے ؟*
===========================================
.
اسے سمجھنے کے لئے سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اسلام میں 'خاندان' ایک نہایت اہم ادارہ ہے. ایسا ادارہ جہاں فرد کی تعمیر ہوتی ہے، جہاں نسل زندگی پاتی ہے، جہاں سے ایک تربیت یافتہ معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے. کسی بھی خاندان کی ابتدا ایک مرد اور عورت مل کر شروع کرتے ہیں. یہ رشتہ جو ان کے درمیان قائم ہوتا ہے اسے کامیاب بنانے کیلئے کچھ الہامی ہدایات دی گئی ہیں. جس طرح کسی ادارے کی کامیابی کیلئے لازم ہے کہ اسکا ایک سربراہ ہو ، اسی طرح خاندان کے ادارے کو کامیاب بنانے کیلئے شوہر کو سربراہ بنایا گیا ہے. اس سے ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ مرد عورت سے افضل ہے. دونوں کو برابر عزت و توقیر دی گئی ہے مگر مختلف صورتوں میں مختلف 'حفظ مراتب' کا خیال رکھا گیا ہے. لہٰذا ماں باپ کے درجات میں ماں کو تین گنا زیادہ درجہ حاصل ہے حالانکہ باپ مرد ہے اور ماں عورت. خاندان کے ادارے کی صورت میں شوہر کو مراتب میں سربراہ بنایا گیا ہے. یعنی کسی صورت میں ایک کی دوسرے پر برتری جنس کے حوالے سے نہیں بلکہ رشتہ کے مراتب کی بنیاد پر ہے.ہمسفر، شریک حیات، جیون ساتھی، لباس ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مراتب میں فرق نہیں ہوسکتا. سفر میں بھی نظم قائم رکھنے کیلئے ایک کو 'امیر' بنایا جاتا ہے. اس مراتب کے فرق کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ دونوں انسانوں میں دوستی کا رشتہ نہیں ہوگا. یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک ماں اپنی بیٹی کی بہت اچھی دوست ہوسکتی ہے مگر مراتب کا فرق پھر بھی برقرار ہوگا. جب یہ بات سمجھ آگئی تو ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی ادارے میں شمولیت ادارے کے سربراہ اور ادارے کے رکن دونوں کی باہمی رضامندی سے ہوا کرتی ہے. لیکن جب برطرفی کا معاملہ ہو تو سربراہ آپ کو براہ راست برطرف کر سکتا ہے اور رکن درخوست کے ذریعے علیحدگی اختیار کرسکتا ہے. آسان لفظوں میں ایک 'ڈس مس' کر سکتا ہے اور دوسرا 'ریزائن '. یہی معاملہ طلاق کا ہے ، ایک براہ راست طلاق دے کر رشتہ ختم کرسکتا ہے جبکہ دوسرا درخواست یعنی خلع کے ذریعے علیحدہ ہوسکتا ہے.
.
طلاق تین مختلف اوقات پر دی جاتی ہے ، اور ہر طلاق کے بعد ایک مدت مقرر ہے جس میں دونوں فریق سوچ سمجھ کر ترک یا رجوع کا رستہ اپنا سکتے ہیں. اب اگر ایک شوہر گھر کا سربراہ تو بن گیا مگر خدا کی جانب سے دی گئی اس ذمہ داری کو اس نے مذاق بنا لیا. اس نے ایک بار طلاق دی پھر رجوع کر لیا ، دوسری بار دی پھر رجوع کرلیا لیکن اس کے بعد پھر تیسری بار طلاق دے بیٹھا. اب ظاہر ہے کہ ایسے شخص نے اس انتہائی نازک معاملے کو تماشہ بنا لیا ہے. ایسی صورت میں اب وہ رجوع کا اختیار کھو بیٹھا. اس عورت کو اب اجازت ہے کہ وہ اپنی زندگی کسی دوسرے مرد سے منسوب کر کے نکاح کرلے. یہ دوسرا نکاح عارضی نہیں ہوسکتا ، حلالہ کے نام پر آپ عارضی نکاح نہیں کرسکتے. اس طرح کے حلالہ پر رسول پاک صلی اللہ و الہے وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور کرائے کے سانڈ جیسے سخت الفاظ سے تعبیر کیا ہے. یہ دوسرے شخص سے نکاح اس نیت سے ہی کیا جائے گا کہ ایک نیا کامیاب خاندانی ادارہ قائم ہو. لیکن خدا نہ کرے اگر اس بار بھی کوئی بات بگڑگئی اور طلاق واقع ہوگئی تو اب عورت آزاد ہے کہ وہ کسی تیسرے شخص یا اسی پہلے شوہر سے واپس نکاح کرلے.
.
یہ امر بھی غور طلب ہے کہ نکاح نامہ میں ایسی شقیں موجود ہیں جس میں خاتون طلاق کے متعلق اپنی شرائط رکھ سکتی ہیں لیکن اکثر اسے بتایا نہیں جاتا بلکہ اس حصہ پر کاٹی لگادی جاتی ہے. اسی طرح اگر کوئی شرعی قدغن نہ ہو تو نئی شرائط کو بھی اہل علم کے ذریعے متعین کیا جاسکتا ہے. اس کی مثال بھی ایسی ہی ہے جیسے ایک ادارے کا سربراہ اور رکن معاہدہ کے آغاز ہی میں عموم سے ہٹ کر کچھ اضافی شرائط طے کرلیں. و الله اعلم بالصواب
.
*====عظیم نامہ====*
.
*(نوٹ: یہ میری ناقص سمجھ ہے، جس میں غلطی کا احتمال ہے. لہٰذا اس سے کوئی حکم اخذ نہ کیا جائے بلکہ اسے ایک طالب علم کی سعی سمجھا جائے)*
❣❣❣❣❣❣❣❣
📕طالب دعا📕
🖊 *عبدالامین برکاتی قادری*
🇮🇳 *ویراول گجرات ہند*

Friday, October 14, 2016

ہند میں مدارس دینیہ کی تباہی کا اصل سبب

*ہند میں مدارس دینیہ کی تباہی کا اصل سبب*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بھی ملک ، کوئی بھی شہر ، کوئی بھی گاؤں ، کوئی بھی گھر ، کوئی بھی تنظیم اور کوئی بھی اِدارہ اُس وقت زَوال پَزیر ہوتا ہے جب اس کی باگ ڈور نااہل اور غیر ذمہ دار لوگوں کے ہاتھ میں پہنچ جائے ۔
لوگوں کی نا اَہلی کا بُرا اثر دین ودنیا دونوں پر ہوتا ہے اور یہی دونوں کی بربادی کا سبب بھی ہے چنانچہ رسولُ اللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ  *''لَاتَبکُوا عَلَی الدّینِ إذا وَلِیَهٗ أھلُهٗ وَابکُوا علیهِ إذا وَلِیَهٗ غیرُ أھلِهٖ''*
یعنی دین پر اُس وقت مت رونا جبکہ اُس کی سر پَرستی اَہل لوگوں کے ہاتھ میں ہو ، دین پر اس وقت رونا جبکہ اس کی سرپرستی نااہلوں کے ہاتھ میں ہو اس حدیث سے یہ پتاچلا کہ نا اہلوں کی نا اہلی دین کو لے ڈوبی گی
اور ایک حدیث میں ہے: *إذَاوُسّدَ الأمرُإلٰی غَیْرِأھلِهٖ فَانتَظِرِ السَّاعَۃَ "*
یعنی جب معاملہ نا اہلوں کے سپردکردیاجائےتو قیامت کا انتظار کرنا''
اس حدیثِ پاک میں قیامت کے انتظار کی بات یہ بتارہی ہے کہ نا اہلوں کی نااہلی دنیا کو بھی لے ڈوبے گی
شرعًا معلّمی اور استاذی کا اہل وہ ہے جس کے پاس حقیقۃً علم ہو اور وہ اپنی ہر بات طلبہ کے ذہن نشین کرنے کا ہُنَر رکھتا ہو ، عمل ہو اور وہ طلبہ کو با عمل بنانے کی تڑپ رکھتا ہو
یہ چاروں باتیں تدریسی اہلیت کا لازمہ ہیں۔ اِن کے بغیر کسی سے بھی صحیح تعلیم وتربیت اور اَفرادسازی کی امید کھلی بیوقوفی ہے.!
آج ہندوستان کے بیشتر مَدارِس میں خُصوصًا یوپی میں مُدرس کی تقرُّری اس کے علم ،صلاحیت اور استتحقاق پر نہیں ہوتی بلکہ رشتے داری ، دوستی ، دنیوی مَنفَعَت اور رِشوت وغیرہ کی بنا پر ہوتی ہے اور اپنے رشتے دار ، دوست ، قریبی اور چاپلوس کو مستحق ثابت کرنے کیلئے پوری کوشش بلکہ مُنَظَّم سازش کی جاتی ہے۔ اس بلا میں نہ یہ کہ صرف عوام بلکہ اچھے اچھے اہل علم حتی کہ خانقاہوں کے بوریہ نشین بھی گرفتار ہیں۔ اپنی اولاد ، احباب اور نا اہل طلبہ کو جگہ کا حقدار ثابت کرنے کیلئے طرح طرح کے بیجا اِقدامات کئے جاتےہیں ۔ اگر اولاد انگریزی پڑھ رہی ہو تو بھی انھیں عربی فارسی بورڈ کا فرضی امتحان دلاکر عالم وفاضل باوَر کرایاجاتا ہے اس کے لئے باقاعدہ نقل کرنے اور کرانے کا جرم عظیم بھی کیا جاتا ہے گھوس کی صورت بھی اپنائی جاتی ہے ،اس طرح سے لوگ نا اہلوں کا استحقاق ثابت کرتے ہیں اور اہل حضرات کا حق مارتے ہیں ،خود مَدارسِ اسلامیہ کے اَساتذہ دو پیسوں کی لالچ میں آکر یا یونہی دنیاوی رَواروِی میں غیر مستحِقّین کا ہیلف کرکے '' نا اہلی '' کو پَروان چڑھاتے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں غیر عالم وفاضل فرضی عالم وفاضل بن کر علما کی جگہ راج کررہے ہیں
ایسی صورت میں تاریخ مَدارِسِ اسلامیہ کی تباہی کا مَرثیہ پڑھنے پر مجبور ہے اور مَدارِسِ اسلامیہ کی تباہی صرف مدارِسِ اسلامیہ کی ہی تباہی نہیں ہے بلکہ پوری قومِ مسلم کی تباہی ہے اس لئے کہ مَدارسِ اسلامیہ ہی اسلامی تعلیم کاسرچشمہ اور مسلمانوں کا دینی مرکز ہیں یہ بگڑے تو سب بگڑے ۔کسی نے سچ کہا کہ ؂
*چو کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی*

آج مَدارِس تو بہت ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے حال پر رونا آرہاہے ۔اگر سال بھر میں ایک مدرسے سے پانچ سو طلبہ پڑھ کر فارغ ہوتےہیں تو صحیح معنوں میں ان میں پانچ دس ہی کام کے لائق ہوتے ہیں اگر مدرسوں میں مُدرّسین و مُلازِمین کی تقرُّری اہلیَّت کی بِنا پر ہوتی تو انھیں موجودہ حالتِ زار سے دوچار نہ ہونا پڑتا
لیکن افسوس ! کہ آج صورتِ حال ایسی کردی گئی ہے کہ جلدی " اہل " مل نہیں پاتے ہیں اور نہ ہی اَراکین و انتظامیہ کو " اہل "کی فکر ہے
یادرکھو !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: *ﻣَﻦ ﻭُﻟِّﻲَ ﻣِﻦ ﺃﻣﺮِ ﺍﻟﻤُﺴﻠﻤﻴﻦَ ﺷﻴﺌًﺎ ، ﻓَﻮَﻟّٰﻰ ﺭَجُلًا ﻭَﻫُﻮَ ﻳَﺠِﺪُ ﻣَﻦ ﻫُﻮَ ﺃﺻﻠَﺢُ ﻟِﻠﻤُﺴﻠِﻤِﻴﻦَ ﻣِﻨﻪٗ ﻓَﻘَﺪ ﺧَﺎﻥَ ﺍﻟﻠّٰﻪَﻭَﺭَﺳُﻮﻟَﻪٗ*
یعنی جو مسلمانوں کے کسی معاملے کا اِختیار رکھتا ہو اور وہ اُس معاملے میں اُن کیلئے زیادہ مناسب شخص کو چھوڑکر کسی اَور کو ان کا والی ونِگراں بنائے اس نے واقِعۃً اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت کی۔
اور ایک روایت میں یہ ہے کہ : *ﻣَﻦ ﻗَﻠَّﺪَ ﺭَجُلًا عَمَلًا ﻋَﻠﻰٰ ﻋِﺼَﺎﺑَﺔٍ ﻭَﻫُﻮَ ﻳَﺠِﺪُ ﻓِﻲ ﺗِﻠﻚَ ﺍﻟْﻌِﺼَﺎﺑَﺔِ ﺃﺭﺿٰﻰ ﻣِﻨﻪٗ ، ﻓَﻘَﺪﺧَﺎﻥَ ﺍﻟﻠّٰﻪَ ﻭَﺧَﺎﻥَ ﺭَﺳُﻮﻟَﻪٗ ﻭَﺧَﺎﻥَ ﺍﻟﻤُﺆمِنِینَ*
یعنی جو کسی شخص کو ایسی جماعت پر عامِل مُقرَّر کرے جس جماعت میں وہ اس سے بہتر شخص کو موجود پاتاہو تو بے شک اس نے اللہ کے ساتھ خیانت کی ،اس کے رسول کے ساتھ خیانت کی اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی
اس سے پتہ چلا کہ کوئی بھی عہدہ اس کے اہل کا ہی حق ہے اور اللّٰہ تعالی فرماتاہے *:إنَّ اللّٰهَ يأمُرُكُم أن تُؤَدُّوا الأمَاناتِ اِلٰي أهلِها"*
يعني بیشک ال لہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے حوالے کرو
اور ارشاد فرماتا ہے " *ﻳﺎﺃﻳﻬﺎ ﺍﻟﺬﻳﻦ ﺁﻣﻨﻮﺍ ﻻ ﺗﺨﻮﻧﻮﺍ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺍﻟﺮﺳﻮﻝ ﻭﺗﺨﻮﻧﻮﺍ ﺃﻣﺎﻧﺎﺗﻜﻢﻭﺃﻧﺘﻢ ﺗﻌﻠﻤﻮﻥ "*
یعنی اے ایمان والو! تم جان بوجھ کر اللہ ورسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنے پاس رکھی گئی امانتوں میں خیانت نہ کرو
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : *ﻣَﺎ ﻣِﻦ ﺭﺍﻉٍ ﻳَﺴﺘَﺮﻋِﻴﻪِﺍﻟﻠّٰﻪُ ﺭِﻋَﻴَّﺔً ﻳَﻤُﻮﺕُ ﻳَﻮﻡَ ﻳَﻤُﻮﺕُ ﻭَﻫُﻮَ ﻏﺎﺵٌّ ﻟَﻬَﺎ ، ﺇلَّا ﺣَﺮَّﻡَ ﺍﻟﻠّٰﻪُ ﻋَﻠَﻴﻪِ رَائِحَۃَ ﺍﻟﺠَﻨَّﺔ* ـ
یعنی کسی بھی حَلقے کا ذمّہ دار اپنے حلقے سے سےدغابازی کرکے جس دن بھی مرے گا تو اس کے مَرتے ہی اللہ اس پر جنت کی خوشبو حرام کردے گا
اگر ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ کسی عہدہ پر کسی کو فائز کرسکتے ہیں تو ضروری ہےکہ اس کا اہل تلاش کر ہی اس کے سپرد کریں اس لئے کہ وہ عہدہ اسی کا حق ہے جو کہ ہمارے پاس محض امانت ہے ورنہ ہم اس اہل کے حق میں گرفتار ہونے کے ساتھ اللّٰہ ورسول اور قیامت تک جنھیں بھی نا اہل کی تقرُّری کے سبب کوئی نقصان پہنچے ان سب کے حق میں گرفتار ہوں گے
لیکن آج یہ تماشا دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اگر کسی نے اپنی طاقت استعمال کرکے کسی اہل کو اس کا حق دیدیا اور اسے اس کی جگہ پر مُتَمَکّن کردیا تو وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں نے اس کے اوپر بڑا احسان کیا ہے اور وہ بسا اوقات نہایت مُتَکبّرانہ انداز میں اس کا ذکر بھی کرتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس حقدار پراحسان نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس پر احسان کیا کہ اس نے حقدار کو اس کا حق دیا لیکن آگے اس نے احسان جتا کے اپنا اجر ضائع کرلیا
اس کو اپنی اصلاح کی سخت ضرورت ہے کیونکہ وہ منافق اَعرابیوں کے طریقے پر گامزن ہے قرآن پاک میں ہے کہ " *ﻳَﻤُﻨُّﻮﻥَ ﻋَﻠَﻴﻚَ ﺃﻥ ﺃﺳﻠَﻤُﻮﺍ قُل لَا ﺗَﻤُﻨُّﻮﺍ ﻋَﻠَﻲَّ ﺇﺳﻼﻣَﻜُﻢ ﺑَﻞِ ﺍﻟﻠّٰﻪُ ﻳَﻤُﻦُّ ﻋَﻠَﻴﻜُﻢ ﺃﻥ ﻫَﺪَﺍﻛُﻢ ﻟِﻺﻳﻤﺎﻥِ ﺇﻥ ﻛُﻨﺘُﻢ ﺻﺎﺩِﻗِﻴﻦَ"*

یعنی اے میرے محبوب!منافق اَعرابی تم پر اپنے ایمان لانے کا احسان رکھتے ہیں۔تم فرمادو کہ تم اپنے ایمان لانے کا احسان مجھ پر مت رکھو بلکہ اگر تم سچے ہو تو اللہ تم پر احسان رکھتاہے کہ اس نے تمھیں ایمان کی ہدایت دی _
کسی حقدار کو اس کا حق دیکر احسان جتانا انتہائی گھٹیا اور پَست فطرت لوگوں کا کام ہے اور حقدار کو اس کا حق نہ دینا اس پر ظلم ، اللہ ورسول کے ساتھ خیانت اور مسلمانوں کے ساتھ دغابازی ہے
لاکھوں لاکھ کی لاگت سے جلسے جلوس کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ہم مدرسین کی تقرُّری سے پہلے پچیس پچاس ہزارخرچ کرکے کچھ مخلص ،باصلاحیت اور بیجا رِعایت سے بچنے والے علماءِ کرام کو بلواکر ان کی اہلیت کی جانچ کرلیں پھر ان کی تقرُّری کریں نا اہلوں کی تقرری کے بعد تعلیمی معیار بنانے کیلئے کتنی بھی کتابیں بدلیں کتنے بھی نئے نصاب مقرر کریں اور کتابوں کی کتنی بھی مقدار یں متعین کریں۔لیکن کامیابی کی امید نہ رکھیں اِس لئے کہ اِن تدبیروں سے اس خامی کی تَلافی ممکن نہیں۔
اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بحرمۃ النبی الامین صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم
🖋 ازقلم :محمد مشاھد رضا عبیدالقادری ضلع گونڈہ یو۔ پی
💌❣💌❣💌❣💌
❣اسیر بارگاہ رضا❣
📧 *عبدالامین برکاتی قادری*
🇮🇳 *ویراول گجرات ہند*

Wednesday, October 5, 2016

دل ہلا دینے والا واقعہ

*تیری بیوی کےجسم کا جتنا حصہ ڈھکا ہوا ہے اس پر تیرا حق ہے مگر جو حصہ کھلا ہے وہ تو شاملات ھے اس کو دیکھنے کا ہم سب کا حق ہے*
❣❣❣❣❣❣❣
*دل کو ہلا دینے والی ایک تحریر*

کہتے ہیں قاہرہ سے اسوان جانے والی گاڑی میں سوار ایک عمر رسیدہ شخص کی عمر کم از کم ساٹھ تو ہوگی اور اوپر سے اس کی وضع قطع اور لباس، ہر زاویے سے دیہاتی مگر جہاں دیدہ اور سمجھ دار بندہ لگتا تھا۔
ایک اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک نوجوان جوڑا سوار ہوا جو اس بوڑھے کے سامنے والی نشست پر آن بیٹھا۔صاف لگتا تھا کہ نوبیاہتا ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ لڑکی نے انتہائی نامناسب لباس برمودہ پینٹس کے ساتھ ایک بغیر بازؤں کی کھلے گلے والی شرٹ پہن رکھی تھی جس سے اس کے شانے ہی نہیں اور بھی بہت سارا جسم دعوت نظارہ بنا ہوا تھا۔

مصر میں ایسا لباس پہننا کوئی اچھوتا کام نہیں، اور نا ہی کوئی ایسے لباس پہنی کسی لڑکی کو شوہدے پن سے دیکھتا یا تاڑتا ہے۔ مگر دوسرے مسافروں کے ساتھ ساتھ لڑکی کے خاوند کی حیرت دید کے قابل تھی کہ اس بوڑھے نے لڑکی کو دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔
چہرے سے اتنا پروقار اور محترم نظر آنے والے شخص کی حرکتیں اتنی اوچھی، بوڑھے کی نظریں تھیں کہ کبھی لڑکی کے شانوں پر تو کبھی لڑکی کی عریاں ٹانگوں پر۔ اوپر سے مستزاد یہ کہ بوڑھے نے اب تو باقاعدہ اپنی ٹھوڑی کے نیچے اپنی ہتھیلیاں ٹیک کر گویا منظر سے تسلی کے ساتھ لطف اندوز ہونا شروع کر دیا تھا۔

بوڑھے کی ان حرکات سے جہاں لڑکی بے چین پہلو پر پہلو بدل رہی تھی وہیں لڑکا بھی غصے سے تلملا رہا تھا، بالآخر اس نے پھٹتے ہوئے کہا: *بڑے میاں،* کچھ تو حیا کرو، شرم آنی چاہئے تمہیں، اپنی عمر دیکھ و اور اپنی حرکتیں دیکھو، اپنا منہ دوسری طرف کرو اور میری بیوی کو سکون سے بیٹھنے دو۔
*بوڑھے دیہاتی نے لڑکے کی بات تحمل سے سنی اور متانت سے جواب دیا:* لڑکے، میں نا تو جوابا تجھے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تو خود کچھ شرم و حیاکر۔ نا ہی تجھے یہ کہوں گا کہ تجھے اپنی بیوی کو ایسا لباس پہناتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ تو ایک آزاد انسان ہے، بھلے ننگا گھوم اور ساتھ اپنی بیوی کو بھی گھما۔

لیکن میں تجھے ایک بات ضرور کہنا چاہتا ہوں، کیا تو نے اپنی بیوی کو ایسا لباس اس لئے نہیں پہنایا کہ ہم اسے دیکھیں۔ اگر تیرا منشا ایسا تھا تو پھر کاہے کا غصہ اور کس بات کی تلملاہٹ؟
*بوڑھے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا؛* دیکھ میرے بیٹے، تیری بیوی کا جتنا جسم ڈھکا ہوا ہے اس پر تیرا حق ہے کہ تو دیکھ، مگر اس کا جتنا جسم کھلا ہوا ہے اس پر تو ہم سب کا حق بنتا ہے کہ ہم دیکھیں۔ اور اگر تجھے میرا اتنا قریب ہو کر تیری بیوی کو دیکھنا برا لگا ہے تو میرا نہیں میری نظر کا قصور ہے جو کمزور ہے اور مجھے دیکھنے کیلئے نزدیک ہونا پڑتا ہے۔

بوڑھے کی باتیں نہیں اچھا درس تھا مگر ذرا ہٹ کر، لوگوں نے جان لیا تھا کہ بوڑھا اپنا پیغام اس جوڑے تک پہنچا چکا ہے۔ لڑکی کا چہرہ آگر شرم سے سرخ ہو رہا تھا تو لڑکا منہ چھپائے چلتی گاڑی سے اترنے پر آمادہ۔ اور ہوا بھی ایسے ہی، اگلے اسٹیشن پر لڑکے نے جب گاڑی سے اترنے کیلئے باہر کی طرف لپکنا چاہا تو بوڑھے نے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا؛ *بیٹے ہمارے دیہات میں درخت پتوں سے ڈھکے رہیں تو ٹھیک، ورنہ اگر کسی درخت سے پتے گر یا جھڑک جائیں تو ہم اسے کلہاڑی سے کاٹ کر تنور میں ڈال دیا کرتے ہیں۔*
❣❣❣❣❣❣❣
🍀 *طالب دعا* 🍀
✍ *عبدالامین برکاتی قادری*
🇮🇳 *ویراول گجرات ہند*