Total Pageviews

Abdulamin BarkaTi Qadri

Thursday, July 14, 2016

حق کی زبان

سیدی مرشدی کنزی فوزی لیومی و غدی مرد مومن مرد حق علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رضوی الحسنی و الحسینی دامت برکاتہم القدسیہ ۔۔۔۔۔۔

از رشحات قلم : ابو المکرم ڈاکٹر سید محمد اشرف جیلانی دام ظلہ

حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری مدظلہ العالی کی شخصیت میں بے شمار خصوصیات ہیں ، آپ پیر طریقت بھی ہیں اور رہنمائے شریعت بھی ، جید عالم دین بھی ہیں اور بے مثل مقرر بھی ، کتب کثیرہ کے مصنف بھی ہیں اور مولف بھی ، لیکن چند اوصاف ایسے ہیں جن کی وجہ سے آپ دیگر علماء میں ممتاز نظر آتے ہیں اور ان میں سے ایک ہے آپ کی جرات و بے باکی ، جس کا مشاہدہ راقم نے کئی مواقع پر کیا ہے ۔
یہ اس دور کی بات ہے جب حافظ محمد تقی شہید رحمۃ اللہ علیہ صوبائی وزیر مذہبی امور تھے اور اور وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی میر ترین تھے ، حافظ تقی شہید نے کراچی کے میریٹ ہوٹل میں حج کے سلسلے میں ایک میٹینگ کی جس میں علماء و مشائخ کو مدعو کیا اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو دعوت دی گئی ۔ والد صاحب قبلہ کے نام دعوت نامہ آیا لیکن ان کی طبیعت ناساز تھی ، اس لئے انہوں نے فرمایا تم دونوں بھائی چلے جاؤ ، چنانچہ ان کے حکم سے راقم اور برادر اصغر صاحبزادہ حکیم سید اشرف جیلانی زید مجدہ میٹنگ میں شرکت کے لئے روانہ ہوگئے ، جب ہم وہاں پہنچے تو دیوبندیوں کے عالم مولانا آصف قاسمی اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ موجود تھے ، ہم دونوں ایک طرف بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر بعد شیعوں کے مجتہد مولانا نصیر الاجتہادی آئے اور اور وہ دوسری جانب بیٹھ گئے ، ان کے بعد مولانا اسعد تھانوی اور امجد تھانوی آئے پھر مولانا شاہدین اشرفی آئے ، اسی طرح علماء آتے رہے اور بیٹھتے رہے پھر حافظ تقی صاحب مرحوم حاجی میر ترین صاحب کے ساتھ آئے ، سب سے آخر میں حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری مدظلہ العالی تشریف لائے ، آپ کو دیکھتے ہی تمام علماء کھڑے ہوگئے ، آپ نے بارعب انداز میں سب کو سلام کیا ۔ اسٹیج کے سامنے کرسیوں کی پہلی قطار میں پہلی کرسی پر آصف قاسمی بیٹھے ہوئے تھے جیسے ہی شاہ صاحب کی نظر ان پر پڑی ، آپ نے بلند آواز سے فرمایا ارے یہ وہابی یہاں بیٹھا ہوا ہے ، آصف قاسمی اپنی کرسی سے کھڑے ہوئے اور شاہ صاحب سے ہاتھ ملایا ، شاہ صاحب نے فرمایا ، تم نے قاسم نانوتوی کو اعلی حضرت کیوں لکھا ، اعلی حضرت صرف مولانا احمد رضا خاں ہیں ۔ آپ نے علماء کے سامنے اس طرح بے باک انداز میں کہا کہ وہ گھبرا گیا اور پھیکی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ ہاں بہت علماء نے مجھ سے کہا کہ تم نے کیوں لکھا ، شاہ صاحب نے پھر فرمایا دیکھو آئندہ ایسی حرکت نہیں کرنا ۔ پھر سب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے ، شاکر قاسمی نے تلاوت کی ، ایک صاحب نے نعت پڑھی پھر اس اجلاس کی کاروائی شروع ہوئی ۔ اجلاس حج سے متعلق تھا لیکن دوران گفتگو اسعد تھانوی نے تحریک پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اکابرین نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا ، یہ سنتے ہی فورا شاہ صاحب قبلہ نے بلند آواز سے فرمایا ، یہ غلط بیانی کررہے ہیں میں بتاؤں کہ ان کے اکابرین نے تحریک پاکستان میں کیا کردار ادا کیا ، مولانا مفتی محمود نے تو یہ کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ میں پاکستان بنانے گناہ میں شریک نہیں ہوا ۔ یہ سن کر اسعد تھانوی اور امجد تھانوی سخت غصے میں آگئے اور الٹی سیدھی بولنے لگے ، لیکن شاہ صاحب نے ان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نہایت جرات و بے باکی سے ان کے کارناموں کو بیان کردیا ، اس دوران حافظ تقی صاحب کبھی ان کو اور کبھی شاہ صاحب کو خاموش کرانے کی کوشش کرتے رہے ، اس دوران راقم نے پہلی مرتبہ کسی سنی عالم دین کو وہابی علماء کے سامنے بے باکی کے ساتھ انکے کارناموں کو (جو پاکستان کے خلاف تھے ) بیان کرتے ہوئے دیکھا ، اپنے اسٹیج سے وہابیوں کے خلاف بولنا تو بہت آسان ہے لیکن وہابی علماء کے سامنے ان کے اکابرین کے خلاف بولنا یعنی حق بات کہنا یہ صرف مرد حق علامہ شاہ تراب الحق ہی کا کام ہے ۔

پیشکش
محمد تنویر رضا برکاتی
برکاتی مشن برہان پور شریف

No comments:

Post a Comment