اب فقط شور مچانے سے نہیں کچھ ہوگا
صرف ہوٹوں کو ہلانے سے نہیں کچھ ہوگا
زندگی کے لیئے بے موت ہی مرتے کیوں ہو
اہل ایماں ہو تو شیطان سے ڈرتے کیوں ہو
تم محفوظ کہاں اپنے ٹھکانے پہ ہو
بعد اخلاق تم ہی لوگ نشانے پہ ہو
سارے غم سارے گِلے شکوے بھلا کے اٹھو
دشمنی جو بھی ہے آپس میں بھلا کے اٹھو
اب اگر ایک نہ ہو پائے تو مٹ جاؤگے
خشک پتوں کی طرح تم بکھر جاؤگے
خود کو پہچانو کہ تم لوگ وفا والے ہو
مصطفےٰ والے ہو مومن ہو خدا والے ہو
کفر دم توڑ دے ٹوٹی ہوئ شمشیر کےساتھ
تم اگر نکل آؤ نارائے تکبیر کے سا تھ
اپنے اسلام کی تاریخ الٹ کر دیکھو
اپنا گزرا ہوا ہر دور پلٹ کر دیکھو
تم تو پہاڑوں کا جگر چاک کیا کرتے تھے
تم تو دریاؤں کا رخ موڑ دیا کرتے تھے
تم نے خیبر کو اُکھاڑا تھا تمھیں یاد نہیں
تم نے باطل کو پچھاڑا تھا تمھیں یاد نہیں
پھرتے رہتے تھے شب و روز بیابانوں میں
زندگی کاٹ دیا کرتے تھے میدانوں میں
رہ کے محلوں میں ہر آیتِ حق بھول گئے
عیش عشرت میں پیمبر کا سبق بھول گئے
امنِ عالم کے امیں ظلم کی بدلی چھائ
خواب سے جاگو یہ دادری سے آواز آئ
ٹھنڈے کمرے حسین محلوں سے نکل کرآؤ
پھر سے تپتے ہوئے صحراؤں میں چل کر آؤ
لے کے اسلام کے لشکر کی ہر خوبی اٹھو
اپنے سینے میں لیئے جذبہ رومی اٹھو
راہِ حق میں بڑھو سامان سفر کا باندھو
تاج ٹھوکر پہ رکھو سر پہ امامہ باندھو
تم جو چاہو تو زمانے کو ہلا سکتے ہو
فتح کی ایک نئ تاریخ بنا سکتے ہو
خود کو پہچانو تو سب کچھ سنورسکتاہے
دشمنِ دین کا شیرازہ بکھر سکتا ہے
حق پرستوں کے فسانوں میں مات نہیں۔
تم سے ٹکرائے زمانے کی یہ اوقات نہیں
________________________________
شیئر کیجیئے۔
No comments:
Post a Comment