Total Pageviews

Abdulamin BarkaTi Qadri

Thursday, July 14, 2016

تیری خوشبو

تیری خوشبو، میری چادر
تیرے تیور، میرا زیور
تیرا شیوہ، میرا مسلک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

میری منزل، تیری آہٹ
میرا سدرہ، تیری چوکھٹ
تیری گاگر، میرا ساگر
تیرا صحرا ، میرا پنگھٹ
میں ازل سے ترا پیاسا
نہ ہو خالی میرا کاسہ
تیرے واری ترا بالک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

تیری مدحت، میری بولی
تُو خزانہ، میں ہوں جھولی
تیرا سایہ، میری کایا
تیرا جھونکا، میری ڈولی
تیرا رستہ، میرا ہادی
تیری یادیں، میری وادی
تیرے ذرّے، میرے دیپک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

تیرے دم سے دلِ بینا
کبھی فاراں، کبھی سینا
نہ ہو کیوں پھر تیری خاطر
میرا مرنا میرا جینا
یہ زمیں بھی ہو فلک سی
نظر آئے جو دھنک سی
تیرے در سے میری جاں تک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

میں ہوں قطرہ، تُو سمندر
میری دنیا تیرے اندر
سگِ داتا میرا ناتا
نہ ولی ہوں، نہ قلندر
تیرے سائے میں کھڑے ہیں
میرے جیسے تو بڑے ہیں
کوئی تجھ سا نہیں بے شک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

میں ادھورا، تو مکمل
میں شکستہ، تو مسلسل
میں سخنور، تو پیمبر
میرا مکتب، ترا ایک پل
تیری جنبش، میرا خامہ
تیرا نقطہ، میرا نامہ
کیا تُو نے مجھے زیرک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

میری سوچیں ہیں سوالی
میرا لہجہ ہو بلالی
شبِ تیرہ، کرے خیرہ
میرے دن بھی ہوں مثالی
تیرا مظہر ہو میرا فن
رہے اُجلا میرا دامن
نہ ہو مجھ میں کوئی کالک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک.....

حق کی زبان

سیدی مرشدی کنزی فوزی لیومی و غدی مرد مومن مرد حق علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رضوی الحسنی و الحسینی دامت برکاتہم القدسیہ ۔۔۔۔۔۔

از رشحات قلم : ابو المکرم ڈاکٹر سید محمد اشرف جیلانی دام ظلہ

حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری مدظلہ العالی کی شخصیت میں بے شمار خصوصیات ہیں ، آپ پیر طریقت بھی ہیں اور رہنمائے شریعت بھی ، جید عالم دین بھی ہیں اور بے مثل مقرر بھی ، کتب کثیرہ کے مصنف بھی ہیں اور مولف بھی ، لیکن چند اوصاف ایسے ہیں جن کی وجہ سے آپ دیگر علماء میں ممتاز نظر آتے ہیں اور ان میں سے ایک ہے آپ کی جرات و بے باکی ، جس کا مشاہدہ راقم نے کئی مواقع پر کیا ہے ۔
یہ اس دور کی بات ہے جب حافظ محمد تقی شہید رحمۃ اللہ علیہ صوبائی وزیر مذہبی امور تھے اور اور وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی میر ترین تھے ، حافظ تقی شہید نے کراچی کے میریٹ ہوٹل میں حج کے سلسلے میں ایک میٹینگ کی جس میں علماء و مشائخ کو مدعو کیا اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو دعوت دی گئی ۔ والد صاحب قبلہ کے نام دعوت نامہ آیا لیکن ان کی طبیعت ناساز تھی ، اس لئے انہوں نے فرمایا تم دونوں بھائی چلے جاؤ ، چنانچہ ان کے حکم سے راقم اور برادر اصغر صاحبزادہ حکیم سید اشرف جیلانی زید مجدہ میٹنگ میں شرکت کے لئے روانہ ہوگئے ، جب ہم وہاں پہنچے تو دیوبندیوں کے عالم مولانا آصف قاسمی اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ موجود تھے ، ہم دونوں ایک طرف بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر بعد شیعوں کے مجتہد مولانا نصیر الاجتہادی آئے اور اور وہ دوسری جانب بیٹھ گئے ، ان کے بعد مولانا اسعد تھانوی اور امجد تھانوی آئے پھر مولانا شاہدین اشرفی آئے ، اسی طرح علماء آتے رہے اور بیٹھتے رہے پھر حافظ تقی صاحب مرحوم حاجی میر ترین صاحب کے ساتھ آئے ، سب سے آخر میں حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری مدظلہ العالی تشریف لائے ، آپ کو دیکھتے ہی تمام علماء کھڑے ہوگئے ، آپ نے بارعب انداز میں سب کو سلام کیا ۔ اسٹیج کے سامنے کرسیوں کی پہلی قطار میں پہلی کرسی پر آصف قاسمی بیٹھے ہوئے تھے جیسے ہی شاہ صاحب کی نظر ان پر پڑی ، آپ نے بلند آواز سے فرمایا ارے یہ وہابی یہاں بیٹھا ہوا ہے ، آصف قاسمی اپنی کرسی سے کھڑے ہوئے اور شاہ صاحب سے ہاتھ ملایا ، شاہ صاحب نے فرمایا ، تم نے قاسم نانوتوی کو اعلی حضرت کیوں لکھا ، اعلی حضرت صرف مولانا احمد رضا خاں ہیں ۔ آپ نے علماء کے سامنے اس طرح بے باک انداز میں کہا کہ وہ گھبرا گیا اور پھیکی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ ہاں بہت علماء نے مجھ سے کہا کہ تم نے کیوں لکھا ، شاہ صاحب نے پھر فرمایا دیکھو آئندہ ایسی حرکت نہیں کرنا ۔ پھر سب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے ، شاکر قاسمی نے تلاوت کی ، ایک صاحب نے نعت پڑھی پھر اس اجلاس کی کاروائی شروع ہوئی ۔ اجلاس حج سے متعلق تھا لیکن دوران گفتگو اسعد تھانوی نے تحریک پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اکابرین نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا ، یہ سنتے ہی فورا شاہ صاحب قبلہ نے بلند آواز سے فرمایا ، یہ غلط بیانی کررہے ہیں میں بتاؤں کہ ان کے اکابرین نے تحریک پاکستان میں کیا کردار ادا کیا ، مولانا مفتی محمود نے تو یہ کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ میں پاکستان بنانے گناہ میں شریک نہیں ہوا ۔ یہ سن کر اسعد تھانوی اور امجد تھانوی سخت غصے میں آگئے اور الٹی سیدھی بولنے لگے ، لیکن شاہ صاحب نے ان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نہایت جرات و بے باکی سے ان کے کارناموں کو بیان کردیا ، اس دوران حافظ تقی صاحب کبھی ان کو اور کبھی شاہ صاحب کو خاموش کرانے کی کوشش کرتے رہے ، اس دوران راقم نے پہلی مرتبہ کسی سنی عالم دین کو وہابی علماء کے سامنے بے باکی کے ساتھ انکے کارناموں کو (جو پاکستان کے خلاف تھے ) بیان کرتے ہوئے دیکھا ، اپنے اسٹیج سے وہابیوں کے خلاف بولنا تو بہت آسان ہے لیکن وہابی علماء کے سامنے ان کے اکابرین کے خلاف بولنا یعنی حق بات کہنا یہ صرف مرد حق علامہ شاہ تراب الحق ہی کا کام ہے ۔

پیشکش
محمد تنویر رضا برکاتی
برکاتی مشن برہان پور شریف

دوسری ماں کہاں سے ملےگی

دوسری ماں کہاں سے ملے گی.......
از بیان: حضرت جی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
ابن قیم رحمه الله نے ایک عجیب بات لکهی ہے....
فرماتے ہیں
میں گلی میں جارہا تها میں نے دیکها ایک دروازہ کهلا ماں اپنے بچے کو مار رہی ہے تهپڑ لگا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ تو نے مجهے بڑا ذلیل کیا.بڑا پریشان کیا.نافرمان ہے.کوئی بات نہیں مانتا.نکل جا میرے گهر سے.وہ بچہ رو رہا تها.دهکے کها رہا تها.جب گهر سے باہر نکلا.ماں نے کنڈی لگا دی.
فرماتے ہیں میں کهڑا ہوگیا کہ ذرا منظر تو دیکهوں.بچہ روتے روتے ایک طرف کو چل پڑا ذرا آگے گیا رک کر پهر واپس آگیا.
میں نےپوچها بچے تم واپس کیوں آگئے. کہنے لگا.سوچا کہیں اور چلا جاوں.پهر خیال آیا کہ مجهے دنیا کی ہر چیز مل سکتی ہے.مجهے ماں کی محبت نہیں مل سکتی.میں اسی لیے واپس آگیا ہوں.محبت ملے گی اسی در سے ملے گی.
کہتے ہیں بچہ بات کرکے وہیں بیٹھ گیا.میں بهی وہیں بیٹها. بچے کو نیند آئی.اس نے دہلیز پر سر رکها سو گیا.کافی دیر گزری ماں نے کسی وجہ سے دروزہ کهولا.ضرورت کے لیے باہر جانا چاہتی تهی.بیٹے کو دیکھا دہلیز پر سر رکهے سو رہا ہے.اٹهایا.......کیوں دہلیز پر سر رکهے سو رہے ہو؟؟
امی مجهے دنیا میں دوسری ماں نہیں مل سکتی. میں اس دہلیز کو چهوڑ کر کیسے جاوں..
فرمایا بچے کی بات سے ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے. بچے کو سینے سے لگا لیا......میرے بیٹے جب تیرا یقین ہے کہ اس گهر کے سوا تیرا گهر کوئی نہیں
میرے در کهلے ہیں آجا میں نے تیری غلطیوں کو معاف کردیا.
فرماتے ہیں........
جب گناہگار بندہ اپنے رب کے دروازے پر اس طرح آتا ہے
رب کریم میری خطاوں کو معاف کردے.
میرے گناہوں کو معاف کردے.
اے بے کسوں کے دستگیر.
اے ٹوٹے دلوں کوتسلی دینے والے.
اے پریشانیوں میں سکون بخشنے والی ذات.
اے بے سہارا لوگوں کا سہارا بننے والی ذات.
اے گناہوں کو اپنی رحمت کے پردوں میں چهپا لینے والی ذات.
تو مجه پر رحم فرما دے.
مجهے در در دهکے کهانے سے بچا لے.
اللہ اپنی ناراضگی سے بچا لے.
پروردگار آئندہ نیکوکاری کی زندگی عطافرما.
جب بندہ اس طرح اپنے آپ کو پیش کر دیتا ہے. اللہ تعالی اس بندے کی توبہ کو قبول کر لیتے ہیں.
اللہ تعالي ہمیں سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین یارب

فقیر اور شوہر

فقیر اور شوہر:
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اصفہان کا ایک بہت بڑا رئیس اپنی بیگم کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا ہوا تھا ،دسترخوان ﷲ کی نعمتوں سے بھرا ہوا تھا، اتنے میں ایک فقیر نے یہ صدا لگائی
" ﷲ کے نام پر کچھ کھانے کے لیے دے دو"
اس شخص نے اپنی بیوی کو حکم دیا " سارا دستر خوان اس فقیر کی جھولی میں ڈال دو"
عورت نے حکم کی تعمیل کی اور جب اس نے اس فقیر کا چہرہ دیکھا تو دھاڑیں مارکر رونے لگی۔۔۔۔۔۔۔اس کے شوہر نے اس سے پوچھا " آپ کو ہوا کیا ہے ؟"
اس نے بتلایا کہ جو شخص فقیر بن کر ہمارے گھر پر دستک دے رہا تھا وہ چند سال پہلے اس شہر کا سب سے بڑا مالدار اور ہماری اس کوٹھی کا مالک اور میرا سابق شوہر تھا
چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہم دونوں دسترخوان پر ایسے ہی بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے جیسا کہ آج کھارہے تھے اتنے میں ایک فقیر نے صدا لگائی
" میں دو دن سے بھوکا ہوں،ﷲ کے نام پر کھانا دے دو"
یہ شخص دسترخوان سے اٹھا اور اس فقیر کی اس قدر پٹائی کی کہ اسے لہولہان کردیا
نہ جانے اس فقیر نے کیا بد دعا دی کہ اس کے حالات دگرگوں ہوگئے کاروبار ٹھپ ہوگیا اور وہ شخص فقیر وقلاش ہوگیا اس نے مجھے بھی طلاق دے دی
اس کے چند سال گذرنے کے بعد میں آپ کی زوجیت میں آگئی
شوہر بیوی کی یہ باتیں سن کر کہنے لگا "بیگم کیا میں آپ کو اس سے زیادہ تعجب خیز بات نہ بتلاوں؟ "
اس نے کہا ضرور بتائیں: شوہر کہنے لگا "جس فقیر کی آپ کے سابق شوہر نے پٹائی کی تھی وہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ میں ہی تھا"
گردش زمانہ کا ایک عجیب نظارہ یہ تھا کہ ﷲ تعالیٰ نے اس بدمست مالدار کی ہرچیز ، مال ، کوٹھی ، حتیّٰ کہ بیوی بھی چھین کر اس شخص کو دے دیا
جو فقیر بن کر اس کے گھر پر آیا تھا اور چند سال بعد پھر ﷲ تعالیٰ اس شخص کو فقیر بنا کر اسی کے در پر لے آیا
وﷲ علی کل شی ءقدیر
(یہ واقعہ ابن الجوزی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے

شور مچانے سے

اب فقط شور مچانے سے نہیں کچھ ہوگا
صرف ہوٹوں کو ہلانے سے نہیں کچھ ہوگا

زندگی کے لیئے بے موت ہی مرتے کیوں ہو
اہل ایماں ہو تو شیطان سے ڈرتے کیوں ہو

تم محفوظ کہاں اپنے ٹھکانے پہ ہو
بعد اخلاق تم ہی لوگ نشانے پہ ہو

سارے غم سارے گِلے شکوے بھلا کے اٹھو
دشمنی جو بھی ہے آپس میں بھلا کے اٹھو

اب اگر ایک نہ ہو پائے تو مٹ جاؤگے
خشک پتوں کی طرح تم بکھر جاؤگے

خود کو پہچانو کہ تم لوگ وفا والے ہو
مصطفےٰ والے ہو مومن ہو خدا والے ہو

کفر دم توڑ دے ٹوٹی ہوئ شمشیر کےساتھ
تم اگر نکل آؤ  نارائے تکبیر کے سا تھ

اپنے اسلام کی تاریخ الٹ کر دیکھو
اپنا گزرا ہوا ہر دور پلٹ کر دیکھو

تم تو پہاڑوں کا جگر چاک کیا کرتے تھے
تم تو دریاؤں کا رخ موڑ دیا کرتے تھے

تم نے خیبر کو اُکھاڑا تھا تمھیں یاد نہیں
تم نے باطل کو پچھاڑا تھا تمھیں یاد نہیں

  پھرتے رہتے تھے شب و روز بیابانوں میں
زندگی کاٹ دیا کرتے تھے میدانوں میں

رہ کے محلوں میں ہر آیتِ حق بھول گئے
عیش عشرت میں پیمبر کا سبق بھول گئے

امنِ عالم کے امیں ظلم کی بدلی چھائ
خواب سے جاگو یہ دادری سے آواز آئ

ٹھنڈے کمرے حسین محلوں سے نکل کرآؤ
پھر سے تپتے ہوئے صحراؤں میں چل کر آؤ

لے کے اسلام کے لشکر کی ہر خوبی اٹھو
اپنے سینے میں لیئے جذبہ رومی اٹھو

راہِ حق میں بڑھو سامان سفر کا باندھو
تاج ٹھوکر پہ رکھو سر پہ امامہ باندھو

تم جو چاہو تو زمانے کو ہلا سکتے ہو
فتح کی ایک نئ تاریخ بنا سکتے ہو

خود کو پہچانو تو سب کچھ سنورسکتاہے
دشمنِ دین کا شیرازہ بکھر  سکتا ہے

حق پرستوں کے فسانوں میں مات نہیں۔
تم سے ٹکرائے زمانے کی یہ اوقات نہیں

________________________________

شیئر کیجیئے۔

پیٹرول میں کمی کیسے

ہوشیار خبردار الرٹ

قدرت روزنامہ11جولائی-2016)اکثر لوگ جب اپنی کار میں پٹرول ڈلوانے کےلیے پیٹرول پمپ پر جاتے ہیں توعموما" مقدار کی بجائے قیمتاً پیٹرول کا آرڈر دیتے ہیں. مثلاً 500، 1000، 1500، 2000 وغیرہ وغیرہ. آپ کا آرڈر لے کر filler-boy آپ کو اپنی شفّافیت دِکھانے کےلیے گاڑی پر ہلکی سی تھپکی لگا کر یا میٹر کی طرف اشارہ کرکے پیٹرول ڈالنا شروع کرتا ہے اور آپ مطمئن ہو جاتے ہیں کہ آپ کو پورا پیٹرول ملے گا.جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے…
دراصل پیٹرول پمپ مالکان نے ماپ تول میں کمی کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کیا ہوا ہے. چونکہ لوگ اکثر قیمتاً آرڈر دیتے ہیں اور اکثر پیمانہ چیک کرنے والے متعلقہ محکمے کے اہلکاران بھی چیکنگ کے دوران ایک لیٹر کا پیمانہ بھر کے دیکھتے ہیں کہ مقدار پوری ہے یا نہیں لہذا پمپ مالکان نے اپنے میٹر 500، 1000، 1500، 2000 وغیرہ پر سیٹ کیے ہوئے ہیں. مثال کے طور پر اگر 500 روپے میں 7 یا ساڑھے 7 لیٹر پٹرول آتا ہے تو یہ لوگ اُسے 5 یا 6 لیٹر پر set کر کے آپ کو چونا لگا دیں گے. میٹر پر اُتنی ہی قیمت اور مقدار نظر آئے گی لیکن درپردہ ماپ تول میں کمی کی گئی ہوگی. اسی طرح 1000، 1500، 2000 روپے کی الگ الگ setting کی ہوتی ہے.
یہ حقیقت تجربہ کر نے سے درست پائی گئی ہے. غیر مُصدّقہ اطلاع کے مطابق لاہور شہر میں ماسوائے ایک یا دو پیٹرول پمپس کے تقریباً تمام اِسی طرح کی ہیرا پھیری کر رہے ہیں.
آپکے لیے مشورہ ہے کہ جب بھی پیٹرول ڈلوائیں تو قیمت کی بجائے مقدار کے لحاظ سے پیٹرول ڈلوائیں اور وہ بھی commom number میں نہیں. یعنی 5، 10، 15، 20 لیٹر میں نہیں بلکہ 7، 9، 13، 17، 23 وغیرہ وغیرہ جیسے un-common نمبر کا استعمال کریں. اس طرح آپ نقصان سے بچ جائیں گے......!!!!!
💌💌💌💌💌💌💌💌💌
🖊صوت القلم
📧عبدالامین برکاتی قادری
🇮🇳ویراول گجرات ہند