Total Pageviews

Abdulamin BarkaTi Qadri

Thursday, March 3, 2016

افلحت الوجوہ

افلحت الوجوہ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آقا علیہ السلام اپنے جانثار صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے، چودھویں کے روشن چاندکے گرداگرد ستاروں کی حسین محفل۔۔۔ ایک قتل کا مقدمہ درپیش تھا، ایک باندی کو کسی نے قتل کردیا تھا اور قاتل کا کچھ پتہ نہ تھا، مقدمہ کی صورت حال پیچیدہ ہورہی تھی، جب کسی طرح قاتل کا نشان معلوم نہ ہوا تو آقا علیہ السلام نے اہل مجلس سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"انشد اللہ رجلا لی علیہ حق فعل ما فعل الا قام"
"جس شخص نے بھی یہ کام کیا ہے، اور میرا اس پر حق ہے تو اسے میں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے"
آقا علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر ایک نابینا شخص اس حالت میں کھڑا ہوگیا کہ اس کا بدن کانپ رہا تھا، اور کہنے لگا کہ:
"یارسول اللہ میں اس کا قاتل ہوں، یہ میری ام ولد تھی اور اس کی میرے ساتھ بہت محبت اور رفاقت تھی، اس سے میرے دو موتیوں جیسے خوبصورت بچے بھی تھے، لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کیا کرتی اور آپ کو برا بھلا کہا کرتی تھی، میں اسے روکتا مگر یہ نہ رکتی، میں اسے دھمکاتا پریہ باز نہ آتی۔ کل رات اس نے آپ کا ذکر کیا اور آپ کی شان اقدس میں گستاخی کی تو میں نے ایک چھری اٹھائی اور اس کے پیٹ پر رکھ کر اس چھری پر اپنا بوجھ ڈال دیا یہاں تک کہ یہ مر گئی"
نابینا صحابی یہ سارا واقعہ سنا کر خاموش ہو چکے تھے۔
معاملہ بہت نازک اور کیس سیدھا سیدھا "دہشت گردی" بلکہ "فوجی عدالت" کا تھا۔
ایک شخص نے "قانون ہاتھ میں لے لیا تھا۔"
"از خود مدعی اور از خود جج" بنتے ہوئے ایک انسان کو قتل کردیا تھا۔۔
"حکومت کی رٹ" چیلنج ہوچکی تھی۔
حکومت بھی کسی راحیل، پرویز، زرداری یا نواز کی نہیں، خود سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔۔۔
"محض مذہبی جذبات" کی بناء پر ایک انسان کو قتل کیا جاچکا تھا۔
عدالت میں کوئی کیس، تھانے میں کوئی رپٹ درج کرائے بغیر۔۔۔۔۔!!
"مذہبی جنونیت" کی روک تھام شاید بہت ضروری تھی اور "جذباتیت" کا قلع قمع بھی۔۔۔۔
پھر وہ لب ہلے جو "ان ھو الا وحی یوحی" کی سند لئے ہوئے تھے۔
جن کا ہلنا بھی وحی، جن کا خاموش رہنا بھی وحی تھا، جن سے نکلے ہوئے الفاظ قیامت تک کے لئے قانون بن جاتے تھے، جن کا غصہ بھی برحق اور جن کا رحم بھی برحق تھا، جو جان بوجھ کر باطل کہہ نہیں سکتے تھے اور خطا پر ان کا رب ان کو باقی رہنے نہیں دیتا تھا۔۔۔۔!!
سب کان ہمہ تن گوش تھے
فضاء میں ایک آواز گونجی، وہی آواز جو سراہا حق تھی۔۔۔
"الا۔۔۔! اشھدوا۔۔۔! ان دمھا ھدر"
"سنو۔۔۔! گواہ ہو جاؤ۔۔۔۔! اس لونڈی کا خون رائگاں ہے"
(اس کا کوئی قصاص نہیں)
(سنن نسائی، ابو داؤد، سندہ صحیح)

ہمارے ہاں عموما یہ ذہن پایا جاتا ہے کہ کسی بھی جرم پر سزا دینے کا اختیار صرف اور صرف حکومت کے ہاتھ میں ہے اور عوام الناس اس معاملے میں بالکل ہی بے اختیار ہیں، یہ بات اکثر معاملات میں صحیح  ہونے کے باوجود من کل الوجوہ درست نہیں، بہت سے معاملات ایسے بھی ہیں جہاں اللہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی قانون نے عام شہریوں کو بھی "قانون ہاتھ میں لینے" کا اختیار دیا ہے۔
1: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"من اطلع فی دار قوم بغیر اذنھم ففقاؤا عینہ فقد ھدرت عینہ"
"جس شخص نے کسی قوم کے گھر میں جھانکا اور انہوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو اس کی انکھ ضائع ہے، اس کا کوئی قصاص نہیں"
(رواہ ابو داؤد وسندہ صحیح)
یہاں غیرت میں آکر کسی کی آنکھ پھوڑدینے والے کے لئے معافی کا اعلان ہے جبکہ اس کی اشارتا بھی کوئی ہلکی سی مذمت نہیں کی گئی۔

2: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"من قتل دون مالہ فھو شھید ومن قتل دون دمہ فھو شھید ومن قتل دون دینہ فھو شھید و من قتل دون اھلہ فھو شھید"
"جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شھید ہے، جو شخص اپنی جان کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شھید ہے، جو شخص اپنے دین کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شھید ہے، جو شخص اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شھید ہے"
(بخاری، جامع الصغیر)
یعنی اپنے مال، جان، عزت اور دین کی خاطر از خود ہتھیار اٹھا کر کسی سے لڑنے کے جائز ناجائز ہونے کی بحث کے بجائے اسے لڑتے لڑتے مرجانے کی ترغیب اور اس پر شھادت کی عظیم خوش خبری سنائی جارہی ہے۔ یہی بات اس سے بھی واضح الفاظ میں:

3: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
"یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص مجھ سے میرا مال چھیننا چاہے تو آپ کیا فرماتے ہیں؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فلا تعطہ"
"اسے نہ دو!"
اس نے عرض کیا:
"اگر وہ مجھ سے لڑے تو؟"
فرمایا کہ: "تم بھی اس سے لڑو!"
اس نے کہا: "اگر وہ مجھے قتل کردے تو؟"
فرمایا کہ: "تو شھید ہے"
عرض کیا کہ: "اگر میں اسے قتل کردوں تو؟"
فرمایا کہ: "وہ جھنم میں جائے گا"
(صحیح مسلم)
یعنی اس شخص کو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہنے کے بجائے خود اس دشمن سے محض مال کی خاطر لڑنے کی ترغیب دی جارہی ہے، اور اس لڑائی میں مارے جانے پر شھادت کی نوید سنائی جارہی ہے۔

(جب محض مال کی خاظر ہتھیار اٹھانے، لڑنے اور مرنے  مارنے کی اجازت ہے تو ناماوس محمد عربی کیا مال سے بھی گئی گذری چیز ہے؟؟؟ جب اپنے گھر میں جھانکنے والے کی آنکھ پوڑ دینے پر کوئی گناہ نہیں تو رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی کیا ہماری عورتوں جتنی بھی وقعت نہیں؟؟ عبرت! عبرت!)

احادیث و فقہ میں اس قسم کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں، سمجھنے اور ماننے والے کے لئے اتنی بھی کافی ہیں، ضدی اور ہٹ دھرم پر قرآن کی آیات کا بھی کوئی اثر نہیں، اللہ جل شانہ ماننے کی توفیق عطاء فرمائیں۔
سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و عزت کا مسئلہ اس قدر حساس ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے آج کے زمانے تک کبھی مسلمانوں نے اس میں کسی مداھنت و نرمی سے کام نہیں لیا، جب بھی کسی گستاخ نے اپنی بدبختی سے ناموس محمد عربی پر ذرا بھی داغ لگانے کی کوشش کی ہے، اکثر و بیشتر کسی نہ کسی غیرت مند مسلمان نے کسی قانونی کاروائی کا تکلف کئے بغیر فی الفور اسے جہنم کا راستہ دکھا دیا ہے، ایسے ملعونین کو، چاہے وہ کعب بن اشرف اور ابو رافع کی طرح معاھد ہوں، یا ابن خطل کی طرح حربی، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی عدالتی کاروائی اور گواہوں کے بغیر اپنے جانثاروں کے ذریعے ٹھکانے لگوایا ہے اور امت امسلمہ کا ہرزمانے کا تعامل بھی یہی چلا آرہا ہے، یہ امت ہر بات پر صبر اور سمجھوتہ کرسکتی ہے لیکن ناموس محمد عربی پر نہ کیا ہے اور نہ کرسکتی ہے۔ تاریخ اسلام میں آپ کو شاید ایسا ایک واقعہ بھی نہ ملے کہ کسی مسلمان نے طیش میں آکر از خود کسی چور کا ہاتھ کاٹ کر اس پر حد جاری کردی ہو، یا زنا کے واقعے پر عدالتی کاروائی کے بغیر کسی کو کوڑے یا رجم کی سزا دے دی ہو، یا شراب پینے پر کسی پر حد جاری کردی ہو۔۔۔۔ لیکن توہین رسالت کے مسئلہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے اب تک ایسے واقعات کی سینکڑوں نہیں تو بیسیوں مثالیں بے تکلف پیش کی جاسکتی ہیں۔

اشکال: اگر گستاخ رسول کو از خود قتل کرنے کا فتوی دے دیا جائے تو پھر تو کوئی بھی شخص کسی کو بھی قتل کرکے اسے گستاخ رسول قرار دے دے گا، اور یوں لوگ اس فتوے کی آڑ میں قتل و غارت کا بازار گرم کردیں گے۔
جواب: توہین رسالت کی بنیاد پر کسی کو قتل کردینے والے سے مقتول کی توہین کا ثبوت طلب کیا جائے گا، اگر وہ ثبوت پیش کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اسے باعزت بری کردیا جائے گا اور اگر وہ ثبوت فراہم نہ کرسکا تو دنیا میں اسے قصاصا قتل کیا جائے گا لیکن اگر وہ اپنی بات میں سچا ہے اور اس نے محض شک و شبہے کی بنیاد پر نہیں بلکہ قطعی یقین کی بنیاد پر یہ قدم اٹھایا ہے تو وہ عند اللہ شھید ہی ہوگا۔
اشکال: اگر توہین رسالت پر از خود قتل کرنے والے سے توہین کا ثبوت طلب کرنا ضروری ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی سے گواہ کیوں طلب نہیں کئے؟
جواب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس کی صداقت کا علم ہوچکا تھا، لہذا گواہی قائم کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی تو موجب قتل ہے لیکن کسی قانون کی گستاخی تو موجب قتل نہیں۔
جواب: ناموس رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنا، گستاخ رسول کو علی الاعلان تحفظ فراہم کرنا اور پوری قوم کے سامنے یہ اعلان کرنا کہ اگر عدالت نے اس مجرم کو سزا دے بھی دی تو میں اسے صدر سے معافی دلاؤں گا، اس کا مطلب کہ یہ شخص صرف گستاخ نہیں بلکہ ملک کے سارے گستاخوں کا باپ اور پشت پناہ ہے، یہ ملعونین کے اس ٹولے کا سرپرست اور مددگار ہے، جب تک اس شخص کا قصہ پاک نہیں کیا جاتا تب تک کسی بھی گستاخ رسول کو کسی قسم کی سزا ملنا ممکن نہیں۔۔۔۔ تعجب کی بات ہے کہ اگر عوام کے قتل اور دہشت گردی کے معاملے میں صرف قاتل نہیں بلکہ اس کو ٹھکانہ و مالی مدد فراہم کرنے والوں کو بھی بلا تردد بے دریغ تختہ دار پر لٹکایا جاسکتا ہے تو گستاخان رسول کے اس کھلے سہولت کار و مددگار کو شرعی سزا دینے پر کیا اشکال و اعتراض ہے؟
ایک بدفہم کا ڈھکوسلہ: حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر تہمت لگا کر (نعوذ باللہ) گستاخی رسول کا ارتکاب کیا تھا، انہیں سزا کیوں نہیں دی گئی؟
جواب: بدعقلی و بے وقوفی سے اللہ ہی نجات دے تو دے، قذف اور گستاخی میں فرق ہے، بعض مخلص صحابہ کرام منافقین کے پروپیگنڈے کے زیر اثر آکر غلط فہمی کی بناء پر ام المومنین رضی اللہ عنھا پر تہمت میں شریک ہو گئے تھے جس پر ان پر حد قذف جاری کی گئی تھی، گستاخی کرتے تو گستاخی کی سزا دی جاتی، اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ اگر ملعون شیطان تاثیر کو لاہور کے مال روڈ پر قمیص اتار کر اسی کوڑے ہی کی سزا دے دی جاتی تب بھی ممتاز قادری والا واقعہ ہر گز رونما نہ ہوتا، مگر وہ کھلے عام پاگل بیل کی طرح ڈکراتا رہا اور قانون بھنگ پی کر دھت سویا رہا یہاں تک کہ ایک مرد مجاھد نے اس کا اسی طرح فیصلہ کیا جیسے اس امت کے مرد مجاھد ہمیشہ کرتے ائے ہیں۔
نوٹ: ام المومنین رضی اللہ عنھا کی برات میں آیات نازل ہوجانے کے بعد اب اگر کوئی شخص ان پر تہمت لگاتا ہے تو اسے قذت کی نہیں بلکہ قرآن کے انکار کی بناء پر ارتداد کی سزا دی جائے گی۔
نکتہ: اگر کوئی معاھد یا ذمی کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے تو بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ چونکہ یہ پہلے سے کافر ہے اور اس کے کفر کے باوجود اسے امان دی گئی ہے تو یہ امان توہین رسالت کی بناء پر ختم نہیں کی جائے گی، لیکن صحابہ کرام، تابعین، جمہور فقہاء اور احناف کے مفتی بہ قول کے مطابق توہین رسالت کی جسارت سے ذمی کا ذمہ اور معاھد کا عھد ختم ہوجاتا ہے اور وہ کعب بن اشرف اور ابو رافع کی طرح قتل کا مستحق ہوجاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ معمولی سا اور ناقابل التفات اختلاف بھی صرف ذمی اور معاھد کے بارے میں ہے، اگر کوئی مسلمان توہین رسالت کا مرتکب ہو توبقول علامہ خطابی بالاتفاق وہ مرتد ہوجاتا ہے اور اس کے قتل کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند چانثار صحابہ جب گستاخ رسول سلام ابن ابی الحقیق کو واصل جہنم کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار مبارک میں فائز و کامران ہوکر پہنچے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، ان غازی جانبازوں پر نظر پڑتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"افلحت الوجوہ"
"یہ چہرے کامیاب ہو گئے"
جبکہ غزوہ بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک مٹھی ریت اٹھا کر کفار کی طرف پھینکی تو یہ فرمایا:
"شاھت الوجوہ"
"یہ چہرے برباد ہو گئے"
الحمد للہ آج غازی ممتاز حسین قادری شہید کے مبارک چہرے، اور محض عشق رسول کی بناء پر ان کی زیارت کے لئے آئے ہوئے خوش نصیب چہروں کو دیکھ کر "افلحت الوجوہ" کا نظارہ سامنے آگیا۔۔۔۔ اور "شاھت الوجوہ؟" یہ کون سے چہرے ہیں؟ ایک چہرہ تو وہی جو اس مرد مجاہد کے ہاتھوں عبرت ناک انجام کو پہنچا تھا، اور باقی بہت سارے منحوس چہرے، کچھ پینٹوں والے، کچھ داڑھیوں والے، جو ایک ملعون کی حمایت اور ایک مرد مجاھد کے تمسخر و استھزاء کی خاطر اپنے پلید قلم اور اپنی بدبودار زبانوں سے ہر طرف نجاست پھیلارہے ہیں۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment